ملک میں اب تک جتنی حکومتیں بنیں کسی بھی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی ۔اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کے درمیان آپسی اختلافات ہیں جنہوں نے اقتدار کی رسہ کشی میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے آج بھی ہماری پارلیمان بہت سی کمزوریوں کاشکار ہے۔
نواز شریف کی تاحیات نااہلی پر اگر کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نے سیاسی جماعتوں کے حق میں بیان دیا ہے تو وہ بلاول بھٹو زرداری ہے جنہوں نے کہا کہ نااہلی جیسے فیصلے عوام پر چھوڑے جائیں۔ اور یہ کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نے خود عدالتی دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کے نتائج اب انہیں بھگتنا چاہئے۔
ہمارے یہاں کا سیاسی کلچر ہمیشہ اسی طرح رہا ہے ہر کوئی اقتدار تک رسائی کیلئے کسی کا بھی ڈھال بننے کیلئے حاضر رہتا ہے ۔اور جب وقت نے کروٹ بدلتا ہے تو سیاستدان نظریاتی بن جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آج تک سیاستدانوں نے غلطیاں کیں اور وقت سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جب موقع ہاتھ آیا تو اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالا ۔
1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت کو ختم کرکے گورنر راج نافذ کیاگیا لیکن اس اقدام کے باوجودخود بھٹو بھی اقتدار پر زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے ۔البتہ ذوالفقار علی بھٹو نے 73ء کا آئین ملک کو دیا جو ایک بڑا کارنامہ تھامگر اس پر بھی عملدرآمد نہیں کیاگیا بلکہ خود آئین کے اندر بعض معاملات کو چھیڑ ا گیا۔
شہید بینظیر بھٹو جب 2008ء کو وطن واپس آئیں تو انہوں نے سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی مگرپھرراولپنڈی میں دہشت گردی کا نشانہ بن کر شہید ہوگئیں۔ مشرف دور کا خاتمہ ہوا اور اس طرح پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک میں حکومت کی بھاگ ڈورسنبھالی۔
اس دوران پی پی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیاجس پر ن لیگ نے خوشی کے شادیانے بجائے اور عدالتی فیصلوں کا احترام کرنے کا مشورہ پیپلزپارٹی کو دیا ۔ اس سارے عمل میں مسلم لیگ ن خود فریق بنی ۔ 2013ء میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
پنجاب اور بلوچستان میں بھی حکومت انہی کی رہی مگر بلوچستان میں ن لیگی ارکان پارٹی کے خلاف خود کھڑے ہوگئے اور عدم اعتماد کی تحریک اپنے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف لائے جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور اس طرح مسلم لیگ ن بلوچستان سے آؤٹ ہوگئی۔ منحرف لیگی ارکان کا کہنا تھا کہ مری معاہدے سمیت دیگر معاملات پران سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔
معاملات یہیں تک نہیں رکے، سینیٹ انتخاب پر بلوچستان کے ارکان چھائے رہے اور انہوں نے اپنا چیئرمین سینیٹ ایوان میں لایا جس کی حمایت پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے کی جسے ن لیگ کے قائدین سمیت ان کے اتحادیوں نے ہارس ٹریڈنگ قرار دیا۔ بہرحال ملک میں سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اجتماعی عوامی مفادات کو ہمیشہ پس پشت ڈالا جس کا خمیازہ آج سیاستدان خود ہی بھگت رہے ہیں ۔
اور یہ بھی ممکن نہیں کہ آنے والے وقت میں یہ روش بدل جائے گی اس کا اندازہ حالیہ سیاسی بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جن میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات پارلیمان پر حاوی رہے جس کی وجہ سے ملک مختلف بحرانات کا سامنا کررہی ہے ۔
ذاتی مفادات پارلیمان پر حاوی رہے
وقتِ اشاعت : April 16 – 2018