پاکستان تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے جے پی ایس ایم کے صدر خسرو بختیارکے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ‘وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جنوبی پنجاب میں نفرت کا بیج بویا اور آج وزیراعلیٰ شہباز شریف بہاولپور کا دورہ کرکے عداوت کو ہوا دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جنوبی پنجاب کو صوبے کا درجہ دینے کے مہم کو سبوتاژ کیا گیا اور مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مخالفت کی۔
اس سے قبل وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل نے علیحدہ صوبے سے متعلق موقف اختیار کیا تھا کہ محض چند اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا مطالبہ سامنے آیا ہے جس پر شاہ محمود قریشی نے چیلنج کیا کہ حکومت اس معاملے پر جنوبی پنجاب میں ریفرنڈم کراکے عوام کی رائے جان لے۔
ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ٹی آئی اور صوبے کا مطالبہ کرنے والے، کمیشن کی تشکیل پر خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ پارٹی سمیت جے پی ایس بی کے رہنماؤں نے صوبے میں معیشت کے ممکنہ وسائل اور جغرافیائی خدوخال کا جائزہ لیا ہے جو صوبے کی تشکیل میں معاون کار ہیں۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ کمیشن کی تشکیل سے پی ٹی آئی، محاذ تحریک اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کے مطالبے کو تقویت ملے گی۔
نائب چیئرمین پی ٹی آئی نے واضح کیا کہ 11 کروڑ نفوس پر مشتمل صوبے کا انتظام و انصرام سنبھالنا ہرگز ممکن نہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن 11 ڈسڑکٹ پر مشتمل ہیں جو 3 کروڑ 50 لاکھ کی آبادی اور 46 قومی اسمبلی کی نشستوں پر مشتمل ہے۔ جے پی ایس ایم کے رہنما پنجاب اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد جمع کرائیں گے جس میں وفاقی حکومت سے نئے صوبے کی تشکیل کے لیے اقدامات اٹھانے کے لیے کہا جائے گا۔
دوسری جانب مسلم لیگ کے صدر وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ ماضی میں نئے صوبے کا سیاسی نعرہ لگا‘ ہم اس کے قیام کے مطالبے کے لئے پرعزم ہیں مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے سابق صوبے کی بحالی کے حوالے سے دو قراردادیں پیش کر چکی ہے، بہاولپور صوبہ کی بحالی اور جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے قراردادیں لانے کا سہرا مسلم لیگ (ن) کے سر ہے۔
جنوبی پنجاب کی ترقی او رخوشحالی کے لئے ساتھ دینے والوں کو محسن سمجھتا ہوں، ملک کے وسیع تر مفاد میں تصادم اور محاذ آرائی کی پالیسی سے گریز لازم ہے۔ شہبازشریف نے ارکان اسمبلی سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے جنوبی پنجاب کی ترقی اورخوشحالی کیلئے اربوں روپے کے وسائل مہیا کئے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے نعرے کوسیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ ہم نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کیلئے پرعزم ہیں۔ کسی اورجماعت کو جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کے قیام کے مطالبے کی بحالی کیلئے قراردادیں منظورکرانے کی توفیق نہیں ہوئی۔
امر واقع یہ ہے کہ ملک میں نئے صوبے بنانے کیلئے اس سے قبل بھی مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔سندھ میں اردو بولنے والوں نے انتظامی حوالے سے اس معاملے کو اٹھایاجس کی سندھی قوم پرست جماعتوں سمیت پیپلزپارٹی نے بھی مخالفت کی، خیبرپختونخواہ میں بھی اسی طرح یہ مسئلہ سامنے آیا۔اور بلوچستان میں آباد پشتونوں کی نمائندگی کے دعوے دار ایک سیاسی جماعت بھی اپنے لیے الگ صوبے کی بات کرتی ہے۔
جس پر بلوچ قوم پرستوں کا موقف ہے کہ پشتون علاقوں پر مشتمل پشتون صوبہ بنانے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہم اس کی حمایت کرینگے لیکن بلوچ سرزمین کی ایک انچ زمین بھی کسی کو نہیں دینگے۔ دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی وحدت میں پختون صوبہ پہلے سے موجود ہے ۔
لہذا ایک وحدت میں ایک قوم کے دو صوبے نہیں ہوسکتے، یا پھر ان پشتون علاقوں کو کے پی کے میں ضم کیا جائے تاکہ تمام پختونوں کا ایک وسیع صوبہ وجود میں آئے ۔اورپھر تاریخی لحاظ سے بلوچستان کے وہ علاقے جنہیں پنجاب اور سندھ میں شامل کئے گئے ہیں ، انہیں دوبارہ بلوچستان کا حصہ بنایاجائے ۔لیکن خدشہ ہے کہ ان معاملات کو اگراٹھایاجائے گا تو بڑے مسائل پیدا ہونگے ۔ انتظامی امور کو سیاسی نعرے بناکر نئے صوبوں کی تشکیل اس وقت انتخابی مہم کا حصہ ضرور ہوسکتا ہے ۔
اس سے ہر ذی شعور شخص واقف ہے کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپورصوبے کے بعد دیگر صوبوں سے بھی آواز بلند ہونا شروع ہوجائے گی جو ملک میں لسانی فسادات کا سبب بنے گی جس کی ماضی گواہ ہے۔ اس اہم نوعیت کے مسئلے پر سوچ بچار کے بعد قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں نیا سیاسی بحران پیدا نہ ہوجائے ۔
سب سے پہلے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ غریب وپسماندہ صوبے جو وسائل کے باوجود آج بھی ترقی کے دوڑ میں پیچھے ہیں اور انہیں اپنے فیصلوں پر بھی اختیار نہیں لہٰذا ان کے وسائل پر ان کے اختیار کو تسلیم کیاجائے تاکہ وہ خود صوبے کے انتظامی امور سمیت دیگر معاملات احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔
کیونکہ حال ہی میں بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تومنحرف لیگی ارکان کا گلہ بھی یہی تھا کہ انہیں صوبہ کے معاملات پر وفاقی حکومت نے کبھی اعتماد میں نہیں لیااور تمام فیصلے بند کمروں میں ہوتے رہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ قومی وحدتوں کو چھیڑنے کی بجائے ان کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے مداخلت اور سیاسی نعرے کی بجائے انہیں بااختیار بنایاجائے جس سے نہ صرف پسماندہ صوبے ترقی کرینگے بلکہ اپنے انتظامی امور کو بھی بہتر طریقے سے سرانجام دینگے۔
نئے صوبوں کا مطالبہ مزیدبحران کا سبب نہ بن جائے
وقتِ اشاعت : April 18 – 2018