|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2018

مسلم لیگ (ن)کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ووٹ کے تقدس کو تماشابنادیا گیا ہے ، 70سالہ تاریخ میں مسلسل ووٹ کی بے توقیری کی جارہی ہے ، آنے والے دنوں میں ملک میں بہت بڑا انتشار دیکھ رہا ہوں سب کو اس سے بچنا چاہیے ،ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ نکلا ہوں، ملک میں عوام کی رائے کو باربار کچلا گیا اور جمہوری قوتوں کو غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان میں20وزرائے اعظم کا دور حکومت 38برس ہے ، فی وزیراعظم نے اوسط 2سال حکمرانی کی جبکہ 4فوجی آمروں کے اقتدار کا عرصہ 32برس ہے ، اوسط ایک ڈکٹیٹر نے 8سال حکمرانی کی، ایک بھی وزیر اعظم 5سال کی آئینی مدت پوری نہ کرسکا، عدلیہ نے جمہوری حکومتوں کے دوران پارلیمنٹ کو قانون سازی کے اختیار سے محروم کر دیا۔

اسی عدلیہ نے آمروں کو آئین کی چھیڑچھاڑ کرنے اور اپنی مرضی کا آئین بنانے کی کھلی چھٹی دیدی، ووٹ کی حرمت کا تقاضہ یہ ہے کہ عوامی رائے کو تسلیم کیا جائے ، حکمرانی کا حق سونپنا پاکستان کے عوام کا اختیار ہے ، اس کا اظہار وہ اپنے ووٹ سے کرتے ہیں، جبکہ عوام کے فیصلے کو دل و جان سے قبول نہیں کیا جاتا ۔

اسکی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں پاکستان کی پوری تاریخ اس تماشے سے بھری پڑی ہے ،ہماری عدلیہ آمروں کے سامنے نہ ٹھہر سکی اور اسے عوام کے حق رائے دہی کیلئے جو توانا اور مضبوط کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ نہ کرسکی ،ہر مارشل لاء کیلئے کوئی نہ کوئی نظریہ ضرورت ایجاد کرلیا گیا، 1958، 1960، 1977اور 1998کے مارشل لاء ہماری عدالتوں نے قبول کرلیئے ، اور انہیں جائز قرار دیتے ہوئے ان سے حلف وفاداری بھی اٹھا لیا، عدلیہ نے مارشل لاء کے دوران کبھی بھی فعال اور متحرک کردار ادا نہیں کیا جو وہ سول حکومتوں کے دوران ادا کرتی رہی ہے ۔ 

سابق وزیراعظم نواز شریف نے جس طرح ماضی کا خلاصہ اپنی درد بھری تقریر میں بیان کیا کاش وہ اوراق مزید الٹتے اور جھانکتے کہ وزرائے اعظم نے اپنی مدتیں کیوں پوری نہیں کیں۔ 2008 ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو اس دوران وزیراعظم نااہل قرار دیئے گئے تو شادیانے کن لوگوں نے بجائے اور کون کیسز میں برائے راست فریق بنا۔ 

تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ جمہوری حکومتوں اور ووٹ کے تقدس کو سیاستدانوں نے اپنے مفادات کی خاطر پامال کیا، شومئی قسمت کہ آج ووٹ کے احترام اور تقدس کی بات کی جارہی ہے ، ملک میں درحقیقت سیاسی بحرانات پیدا کرنے والے خود سیاستدان ہی رہے ہیں۔ اب بھی سیاسی جماعتیں کسی طرح بھی ایک پیج پر نہیں ہیں اور اس کا امکان بھی نہیں ۔

حکمرانوں کو ووٹ کے تقدس کی دہائی دینے کی بجائے اپنے طرز حکمرانی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اگر میاں نواز شریف خلوص نیت سے عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے، ان کی ترقی کیلئے نیک نیتی سے اقدامات اٹھاتے تو عوام خود اپنے ووٹ کی تقدس کو پامال ہونے نہیں ہونے دیتی۔ 

بدقسمتی سے عوام آپ کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہی، انتخاب سے قبل اپنے منشور میں آپ کچکول توڑنے کی بات کرتے ہو لیکن وزیراعظم بننے کے بعد آپ کا وزیر خزانہ پہلے سے بھی بڑا کچکول لے کر آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہوتا ہے اور بھاری شرح سود پر اور سخت شرائط پر قرضہ لے کو لوٹتا ہے ۔

تو آپ کی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت عوامی اداروں کو نج کاری کے نام پر کوڑیوں کے مول بیچ دیتے ہو اور بدلے میں بے روزگاری عوام کا مقدر بنتا ہے، اس کے علاوہ ہر قسم کی عوام دشمن اقدامات پر آپ کو ذرہ بر پشیمانی نہیں ہوتی جس کے ووٹ کی تقدس کی پامالی کا غم آپ کو اب کھائے جارہاہے۔ عوام آج بھی دربدر ہے تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے،لیکن پھر بھی آپ کی اس جمہوریت کا پاسبان بھی عوام ہے۔ 

جس دن عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی آئے گی ،فیصلوں میں ان کی خواہشات شامل ہونگی پھر کسی کو نکالا نہیں جائے گا بلکہ عوام نکلے گی.لہذا پہلے اپنا طرز حکمرانی بدلو، عوام کو حقیقی معنوں میں ساتھ لے کر چلو پھر آپ کو نکالنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکے گا۔