کوئٹہ: صوبائی اسمبلی نے جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کے واقعہ کے خلاف اور کاشتکاروں پر عائد زرعی ٹیکسز واپس لینے سے متعلق مشترکہ قرارداد وں کو منظور کیا۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس پینل آف چیئر مین کی رکن محترمہ یاسمین لہڑی کی زیر صدارت پچاس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ۔
اجلاس میں میر سرفراز بگٹی ، طاہر محمودخان ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، رحمت صالح بلوچ،حاجی اسلام اور ولیم جان برکت کی مشترکہ قرار داد نیشنل پارٹی کے حاجی محمد اسلام بلوچ نے ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان 15اپریل2018ء کو جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے ۔
اس طرح کے بزدلانہ فعل سے صوبے کے عوام اور پورے ملک میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے نیز اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو انصاف کی فراہمی سے کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔
یہ ایوان اس طرح کے بزدلانہ اور اوچھے ہتھکنڈوں کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور ساتھ ہی وفاقی حکومت سے مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ اس قسم کی بہیمانہ نوعیت کی تمام کارروائیوں میں ملوث مجرموں کی گرفتاری کو یقینی بنائے ۔
قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ولیم جان برکت نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے معزز ججز بھی محفوظ نہیں ہیں تو عام شہریوں کے تحفظ کا تصور اسی سے کیا جاسکتا ہے ملک کی سیکورٹی صورتحال کو از سرنو دیکھا جائے انہوں نے کہا کہ ملک کے فیصلے کرنے والوں پر حملے لمحہ فکریہ ہیں ۔
ایسے واقعات کا تدارک ہونا چاہئے ۔قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے اراکین اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران ، شیخ جعفرخان مندوخیل ، میر عاصم کرد گیلو ، حاجی محمد اسلام بلوچ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات باعث تشویش اور قابل مذمت ہیں اس طرح کے واقعات کی تحقیقات ہونی چاہئیں ۔
اراکین اسمبلی نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے اراکین اسمبلی و دیگر شخصیات کی سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے پرتحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ چالیس برسوں سے ہم حالت جنگ میں ہیں یہاں بدامنی کے بے شمار واقعات پیش آئے ہیں جن میں سٹنگ ایم پی ایز کوبھی ہدف بنا کر قتل کیا گیا جبکہ دیگر شخصیات کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ان حالات میں سیکورٹی واپس لینے کے فیصلے سے عوامی نمائندوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔
اس موقع پر چیئر پرسن یاسمین لہڑی نے عدلیہ سے متعلق ادا کئے گئے تمام ریمارکس حذف کرنے کی رولنگ دی جبکہ اراکین اسمبلی کے اظہار خیال کے بعد قرار داد کو ایوان کی مشاورت سے متفقہ طو رپر منظور کرلیا گیا ۔
اجلاس میں قائمہ کمیٹی برائے تعلیم خواندگی و غیر رسم تعلیم ، کوالٹی ایجوکیشن ، صدارتی پروگرام سائنس اور انفامیشن ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن کی غیر موجودگی میں معصومہ حیات نے محکمہ تعلیم میں این ٹی ایس پاس ہڑتالی امیدواروں سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی ۔
جس پر اظہار خیال کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے سید لیاقت آغا نے کہا کہ این ٹی ایس امتحانات میں پچاس ہزار لوگ پاس جبکہ43ہزار امیدوار فیل ہوئے پاس ہونے والوں میں سے جو لوگ میرٹ پر آئے انہیں لگادیا گیا لیکن کمیٹی کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ امیدواروں کو یونین کی سطح پر لیا جائے لیکن کیا محکمہ تعلیم میں اتنی آسامیاں خالی بھی ہیں یا نہیں ایسا کرنے سے دھاندلی کا خدشہ بڑھ جائے گا ۔
ہر ضلع میں اول تا ساتویں پوزیشن پر آنے والے امیدواروں کی لسٹ جاری کی جائے ۔جمعیت العماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی معاملے پر اختلافات آئے ہیں یہ معاملہ2015ء کا ہے جنہوں نے دھاندلی کی وہ آج بھی بدستور عہدوں پر براجمان ہیں اور مراعات لے رہے ہیں میری تجویز ہے کہ پہلے انکوائری کی رپورٹ آنے دی جائے اس کے بعد بھرتیوں کے عمل کو آگے بڑھایا جائے ۔
پشتونخوا میپ کے ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات سے نئے امیدواروں اور بے روزگاروں کی حق تلفی ہوگی اس وقت محکمے میں پانچ ہزار آسامیاں ہیں لیکن امیدوار 50ہزار ہیں تو کیا ہم انہی امیدواروں کو بھرتی کریں گے ایسا کرنے سے ایک بار پھر گھپلا ہونے کا خدشہ ہے ۔
صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ایسی بات نہیں کہ پبلک سروس کمیشن میں بھی گھپلے ہوجاتے ہیں این ٹی ایس کے بارے میں ان کے اپنے لوگوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ پیسے لے کر پوزیشن دیتے ہیں جو لوگ این ٹی ایس امتحانات میں پاس ہوئے اور میرٹ پر آگئے ان کے آرڈر تو ہوچکے ہیں لیکن جو لوگ تعینات نہیں ہوئے ان کو چاہئے کہ وہ تیاری کریں اور دوبارہ سے آئندہ ٹیسٹ میں حصہ لیں ۔
پشتونخوا میپ کے سردار رضا محمد بڑیچ نے کہا کہ اس تمام معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں ضلع اور یونین کونسل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے واضح کیا جائے کہ کس بنیاد پر میرٹ لسٹ بنائی جائے گی ۔
پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ سفارشات کا پہلا حصہ منظور کیا جائے لیکن انکوائری کون کرے گا اس کی مدت کب تک ہوگی یہ بات بھی واضح کی جائے ۔ وزیر تعلیم طاہرمحمودخان نے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ تحقیقات کرائی جائیں ہر یونین کونسل اور ضلع میں پہلے پانچ میرٹ پر آنے والے افراد کو کیسے ایڈجسٹ کریں گے ۔
جب تمام معاملہ مشکوک ہے انکوائری کی مدت واضح کرکے ہڑتال کرنے والوں کی ہڑتال ختم کرائی جائے انکوائری سے انہیں بھی حوصلہ ملے گا۔وزیرعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہاافسو س سے کہنا پڑرہا ہے کہ جو لوگ این ٹی ایس کا نظام لائے اور جنہوں نے یہ ٹیسٹ لیئے تھے وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے گزشتہ حکومت نے بچوں کے ساتھ کیوں ناانصافی کی ۔
چار ہزار پوسٹوں پر 45ہزار لوگ پاس ہوئے تھے جن کو نوکریاں دینی تھیں وہ دے دی گئیں ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو لوگ میرٹ پر آتے ہیں انہیں تعینات کیا جاتا ہے اور جن کا نام میرٹ میں نہیں آتا وہ آئندہ آنے والے امتحانات میں حصہ لیتے ہیں 2015ء میں پاس ہونے والے لوگوں کو 2018ء میں کیسے تعینات کریں ۔
انہوں نے کہا کہ امیدواروں کو چاہئے کہ وہ روڈ پر بیٹھنے کی بجائے محنت کریں ، تیاری کریں اور آئندہ آنے والی ٹیسٹوں میں حصہ لیں ہمارے پاس آسامیاں خالی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی پابندی کی وجہ سے ہم انہیں مشتہر نہیں کرسکے امید ہے کہ عدالتو ں سے ریلیف ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ این ٹی ایس امیدواروں کے معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہئے جب یہ امیدوار کھلی کچہری میں میرے پاس آئے تو میرا موقف یہی تھا کہ جن امیدواروں کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی ہوئی انہیں ریلیف دیا جائے ہمیں کسی بھی قانون کے تحت یہ اختیار حاصل نہیں کہ ہم 2015ء کے امتحانات پر2018ء میں بھرتی کریں آئندہ ایک ہفتے میں 407لوگوں کو آرڈر دے رہے ہیں باقیوں کو چاہئے کہ وہ آئندہ کے لئے تیاری کریں ۔
انہوں نے کہا کہ میں کمیٹی کی تحقیقات کرنے کی سفارش سے اتفاق کرتا ہوں اگر کسی کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات ایک مہینے میں مکمل کرکے ذمہ داروں کو سزاد ی جانی چاہئے اور اس وقت کے بڑوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے جنہوں نے یہ گند کیا تھا ۔
اس موقع پر نیشنل پارٹی کے حاجی اسلام بلوچ نے کہا کہ گند کرنے کا لفظ حذف کردیا جائے جس پر وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ 2015ء میں جو کچھ ہوا یہ گند نہیں تو اور کیا ہے ؟
امیدوار پہلے ہائیکورٹ پھر سپریم کورٹ تک گئے لیکن انہیں حکومت نے ریلیف نہیں دیا ہم نے آتے ہی سپریم کورٹ سے صوبائی حکومت کا کیس واپس لے لیا گند کا مطلب یہ تھا کہ اہل امیدواروں کی حق تلفی ہوئی ہے جو لوگ تین سال حکومت میں تھے ۔
انہیں آج احساس ہوا کہ یہ غلط تھا؟وہ تین سال تک کیوں خاموش تھے؟اپوزیشن میں آکر سب مسلمان ہوجاتے ہیں جب ان کی اپنی حکومت تھی تو دس بار ڈاکٹروں نے ہڑتال کی ان پر شیلنگ کی گئی ڈاکٹروں کو زخمی کیا گیا حتیٰ کہ انہیں آغا خان کراچی لیجانا پڑا ڈاکٹروں کو بھی چاہئے کہ وہ دور دراز علاقوں میں جائیں اور ڈیوٹیاں کریں ۔
جب انہیں ڈیوٹی دینے کی باری یا دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو وہ کام نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں کوئٹہ میں رہنا ہے۔ اپوزیشن والوں نے اپنی حکومت میں ڈاکٹروں کو ریلیف نہیں دیا اور آج کہتے ہیں کہ ان کے مطالبات منظور ہونے چاہئیں ۔ جس کے بعد کمیٹی کی رپورٹ میں مرتب کردہ سفارشات میں ایک ماہ میں این ٹی ایس بھرتیوں کے معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنے کی ترمیم کی گئی اوربعدازاں ایوان نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دے دی ۔
اجلاس میں جمعیت العلماء اسلام کی رکن حسن بانو رخشانی نے کہا کہ 19تاریخ کے اجلاس میں دو ممبران میں کسی بات پر بحث مباحثہ ہوا مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی ایک دوسرے کے خاندانوں پر بات لیجانا مناسب نہیں ایوان میں ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں ۔
انہوں نے چیئر پرسن سے اپیل کی کہ ان ممبران کو چیمبر میں بلا کر ان کی غلط فہمیاں دور کردیں ۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر شگفتہ نے میڈیاپر آکر بلیک میلنگ کی حقیقت یہ ہے کہ نہ انہوں نے ہم پر احسان کیا نہ ہم نے ان پر احسان کیا ہے ۔ وہ تنخواہ کے عیوض خدمات سرانجام دیتی رہیں ٹائم پیریڈ سب کا ہوتا ہے چاہے ہم سیاستدان ہوں یا سرکاری ملازمین ہمیں مدت کے اختتام پر احتجاج کا کوئی حق نہیں ۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اسمبلی کی مدت پوری ہورہی ہے کیا ہمیں بھی احتجاج کرنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ اگر ڈاکٹر شگفتہ نے خدمت کرنی ہے تو میں دعوت دیتی ہوں کہ پسماندہ علاقوں میں جا کر خدمت کریں ۔
ہم بنگلہ بھی دیں گے لاکھوں روپے تنخواہ بھی دیں گے شہر میں بیٹھے ہوئے ہم سب لوگ دھڑلے سے کہتے ہیں کہ ہم خدمت کرتے ہیں آپ دور دراز علاقوں میں جا کر خدمت کریں اجلاس میں صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو نے مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستانکے معاشی حالات پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہیں لوگوں کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر زراعت پر منحصر ہے ۔
بلوچستان کے32اضلاع میں سے صرف چار اضلاع میں نہری پانی موجود ہے جبکہ دیگر کم و بیش25اضلاع میں زراعت کا دارومدار ٹیوب ویلوں پر ہے بجلی کی کمی کا سلسلہ کسی سے پوشیدہ نہیں نیز بارشوں کی کمی کی وجہ سے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔
ہمارے زمیندار کاشت کار انتہائی مشکل حالات میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں حکومت بلوچستان نے سال2001ء سے زرعی آمدن پر انکم ٹیکس لگادیا ہے جو80ہزار روپے سے زیادہ آمدن والے کاشتکاروں پر لاگو ہوتا ہے جبکہ تین لاکھ سے زیادہ آمدن والے کاشت کار پر پندرہ فیصد ٹیکس لگتا ہے جو کہ انتہائی زیادہ ہے اور ہمارے کاشت کار اس کی ادائیگی کے قابل نہیں حخومت بلوچستان کے واجبات دن بدن کاشتکاروں کے ذمے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
اس سلسلے میں کاشت کاروں کے لئے ادائیگی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا اور پھر زمیندار مجبوراؒ احتجاج کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ہڑتالوں پر نکلیں گے جس کی وجہ سے حالات خرابی کی طرف جاسکتے ہیں مزید برآں یہ وقت کاش کاروں کو سہولت فراہم کرنے کا ہے نہ کہ ان سے ٹیکس وصول کرنے کا ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ٹیکسوں کے علاوہ زمینداروں سے آبیانہ عشر پہلے ہی وصول کیا جارہا ہے ۔لہٰذا صوبائی حکومت ان ٹیکسوں کے علاوہ زرعی آمدن ٹیکس 2001ء کو فوری طور پر واپس لے اور تمام زمینداروں کے واجبات کو معاف کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ زمینداروں کی مشکلات کا سدباب ممکن ہوسکے۔
قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ صوبے کے صرف چار اضلاع میں نہری نظام ہے جبکہ باقی پورے صوبے میں ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین پانی حاصل کیا جاتا ہے ۔
دوسری جانب کچھ عرصہ قبل کئی سال طویل خشک سالی کا سلسلہ رہا جس میں زرعی شعبے کو بری طرح سے نقصان پہنچا لاکھوں درخت کاٹ دیئے گئے لاکھوں جانور مر گئے جس کی وجہ سے زمیندار پریشان ہیں مالی بدحالی کے شکار زمیندار اب تو بجلی کے بل بھی ادا نہیں کرسکتے اتنے بھاری ٹیکس کہاں سے اداکرسکتے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ زمینداروں پر عائد ٹیکس فوری طور پر واپس لیا جائے ۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سردار غلام مصطفی ترین نے کہا کہ یہ ٹیکس واپس لیناصرف اس ایوان کا نہیں بلکہ پورے صوبے کے عوام کا مطالبہ ہے زرعی شعبے سے ہمارے عوام کا روزگار وابستہ ہے خشک سالی اور بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے زمینداروں اور زرعی شعبے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے زرعی شعبے سے وابستہ افراد رروزگار ختم ہونے پر شہروں کا رخ کررہے ہیں اگر ہمارے صوبے میں ڈیمز بنائے جاتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے ۔
دوسری جانب پورے پیسے لینے کے باوجود زمینداروں کو صرف دو گھنٹوں کے لئے بجلی فراہم کی جارہی ہے جس سے ہماری گندم کی فصل تباہ ہوگئی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ ٹیکس واپس لے کر زمینداروں کو دھ گھنٹے بجلی فراہم کی جائے ۔
نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ ہمارے عوام کا دارومدار زراعت پر ہے شدید مشکلات سے دوچار زرعی شعبے پر پندرہ فیصد ٹیکس نامناسب ہے لہٰذا فوری طو رپر یہ واپس لیا جائے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ 2001ء میں عائد ٹیکس ادا کرنا ہمارے زمینداروں کے بس کی بات نہیں جس کی وجہ سے ان کے ذمے واجبات بڑھتے جارہے ہیں ۔
ہمارا صوبہ آٹھ سالہ طویل خشک سالی کا شکار رہا لاکھوں درخت کاٹ گئے لاکھوں مویشی مر گئے ہمارا پورا نظام تباہ ہوگیا عوام اپنے گھروں سے در بدر ہوگئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس ٹیکس کو فوراًواپس لیا جائے ۔
سابق صوبائی وزیر میر اظہار کھوسہ نے سندھ اور بلوچستان میں ٹیکسوں کا موازنہ پیش کرتے ہوئے اعدادوشمار کے ذریعے بتایا کہ سندھ کے مقابلے میں بلوچستان میں ٹیکسز کئی گنا زیادہ ہیں سندھ میں 16ایکڑ زرعی زمین پر کوئی ٹیکس نہیں جبکہ یہاں یہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے دریائے سندھ کا پانی جو سندھ میں استعمال ہوتا ہے اس پر ٹیکس نہیں مگر ہمارے ہاں اس پر ٹیکس ہے جو ناانصافی ہے ۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ ایران میں ایک سالہ خشک سالی کے بعد زمینداروں کو ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا مگر ہمارے ہاں کئی سالوں تک مسلسل خشک سالی کے باوجود زمینداروں سے ٹیکس وصول کئے جارہے ہیں ۔
پورے پیسے لے کر زمینداروں کو بمشکل چار پانچ گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے زرعی شعبہ تباہ ہوچکا ہے انہوں نے زور دیا کہ پورے صوبے میں سروے کرکے ڈیمز بنائے جائیں تاکہ بارانی پانی کو محفوظ اور زیر زمین پانی کی سطح کو بہتر بنایا جاسکے۔
جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بجلی اور زرعی مد میں بہت زیادہ بقایہ جات ہیں کاشتکاروں کی آمدنی انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے دیہی آبادی بھی شہروں کی طرف آرہی ہے اور رش بڑھتا جارہا ہے لہٰذا زرعی ٹیکس معاف ہونا چاہئے وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ وہ صوبے کے کاشتکاروں پر احسان کرتے ہوئے زرعی ٹیکس کا خاتمہ کرکے جائیں ۔
بعدازاں ایوان نے مشترکہ قرار داد کو متفقہ طو رپر منظور کرلیا ۔ اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے غیر اعلانیہ طو رپر رات گئے پریشر کم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ دنوں میرے حلقے میں ایک گھر میں دھماکہ بھی ہوا جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوا اس واقعے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔
سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے گیس پریشر میں کمی اور بندش سے متعلق پیشگی اطلاع نہیں دی جاتی میری اپیل ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے جی ایم کو بلا کر مسئلے سے آگاہ کیا جائے ۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سید لیاقت آغا نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ پشین میں بجلی کی صورتحال کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس وقت پشین میں بجلی کانظام درہم برہم ہے زمینداروں کو بمشکل چار گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے مگر اس دوران بھی وولٹیج کم ہونے کی وجہ سے زرعی مشینری کو بری طرح سے نقصان پہنچ رہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اسی دوران کیسکو حکام کو یہاں بلا کر ان سے پشین میں بجلی کی فراہمی کا ٹائم ٹیبل طے اور وولٹیج بہتر بنانے پر بات ہوئی تھی اب ایک مرتبہ پھر کیسکو چیف اور پشین کے زمینداروں کو یہاں بلا کر ان کی ملاقات کرائی جائے یا وزیراعلیٰ ہاؤس میں وزیراعلیٰ کی موجودگی میں یہ ملاقات ہو تاکہ ایک مرتبہ پھر ٹائم ٹیبل طے اور وولٹیج کو بہتر بنایا جاسکے ۔
چیئر پرسن یاسمین لہڑی نے کہا کہ کیسکو چیف کو اس مسئلے پر ارکان اسمبلی کو بریفنگ دینے کے لئے خط لکھا جائے گاتاریخ طے ہونے پر ارکان کو آگاہ کردیا جائے گا۔بعدازاں اجلاس منگل کی سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔