|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2018

کراچی میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے اور اسمبلی فلور سے لے کر سڑکوں تک احتجاج جاری ہے۔ کے الیکٹرک کے خلاف کراچی کی شاہراہیں بینروں سے سجی نظر آرہی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دے ر ہے ہیں۔

کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور کے الیکٹرک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دوسری جانب کے الیکٹرک نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کی بجلی کی پیداوار طلب کے مقابلے میں 500 میگا واٹ کم ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے درمیان تکرار کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سوئی سدرن گیس کمپنی کی 73 فیصد مالک ہے جبکہ کے الیکٹرک میں اس کے 24 فیصد شیئرز ہیں لیکن وفاقی حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔کے الیکٹرک کے ترجمان علی ہاشمی کا کہنا ہے کہ انہیں 100 ملین کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے اس کی وجہ سے 500 میگاواٹ کی قلت ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کراچی میں بجلی کی موجودہ طلب 2600 سے 2700 میگاواٹ ہے ۔

کے الیکٹرک کو سوئی سدرن گیس کمپنی 19 ملین کیوبک فٹ گیس فراہم کرتی ہے جبکہ موجودہ وقت میں تقریباً 100 کیوبک فٹ گیس فراہم نہیں کی جا رہی۔سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان شہباز اسلام کا کہنا ہے کہ وہ ٹرانسمیشن کمپنی ہیں اور گیس کمپنی سے خرید کر کے صارفین کو فروخت کرتے ہیں۔ گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، گیس کی طلب زیادہ اور رسد کم ہو رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کے الیکٹرک کو گزشتہ سال کے مقابلے میں 100 ملین کیوبک فٹ فراہمی کم ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک ہم سے جو گیس طلب کرتی ہے اس کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہے، 1970 میں جو معاہدہ ہوا وہ صرف 10 ملین کیوبک فٹ کا تھا۔ اس کے باوجود بھی ہم انہیں 80 ملین کیوبک فٹ اضافی دے رہے ہیں ،اگر کے الیکٹرک ہم سے معاہدہ کر لیتی ہے تو ہم اسے مزید گیس فراہم کر سکتے ہیں۔

کے الیکٹرک کی 2005 میں نجکاری کی گئی تھی۔ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے کوشش کر رہے ہیں کہ گیس کمپنی سے معاہدہ ہو جائے لیکن یہ کیوں نہیں ہو سکا ، اس کی وجہ سوئی سدرن گیس کمپنی بتا سکتی ہے۔کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس میں ایک دیرینہ تنازع بقایاجات کا بھی ہے۔ 

گیس کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے حساب سے 80 ارب روپے بقایاجات بنتے ہیں جبکہ کے الیکٹرک کہتی ہے کہ 13.5 ارب روپے ہیں اور یہ کوئی چھوٹا فرق نہیں۔انھوں نے کہا ’کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان وزیر اعلیٰ ہاؤس میں یہ طے ہوا تھا کہ کسی تیسرے فریق سے آڈٹ کروایا جائے گا جو 21 روز میں طے کر کے بتائے گا کہ کتنے پیسے بنتے ہیں۔

اس حوالے سے ہم نے ٹرم آف ریفرنس بنا کردئیے لیکن کے الیکٹرک کی طرف سے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں آیا ۔کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بقایاجات کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے جس کی وجہ سے اس پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔

نیشنل الیکٹرک پاورریگیولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک 2200 میگا واٹ بجلی فراہم کر رہی ہے جس میں 1100 میگاواٹ اس کی اپنی پیداوار ہے، 650 میگاواٹ قومی گرڈ سے لی جاتی ہے جبکہ باقی نجی پاور پروڈیوسرز سے حاصل کی جاتی ہے۔

کے الیکٹرک کے پاس موجودہ پلانٹ قدرتی گیس کے علاوہ ایل این جی، فرنس آئل اور ہائی سپیڈ ڈیزل سے بھی بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ نیپرا کا کہنا ہے کہ کے الیکٹراک نے ان ذرائع کو استعمال کرکے بجلی پیدا نہیں کی۔اس تمام صورتحال میں ایک بات واضح ہے کہ دونوں کمپنیوں کے درمیان جاری تنازعہ کا خمیازہ عوام بھگت رہی ہے۔ وفاقی حکومت کا بجلی بحران کے خاتمہ کا اعلان بھی صرف دعویٰ ہی رہا ہے۔ 

بہرحال یہ بحران کسی حل تک پہنچتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کراچی کے عوام کا مسئلہ حل کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،ورنہ عدلیہ اپنا کردار ادا کرے گا، پھر حکومتی گلے شکوے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔