|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2014

کوئٹہ(خ ن) وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ جمہوری عمل کے ثمرات ملک کے تمام علاقوں کے عوام کو ملنے چاہئیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں اور ہم قبائلی علاقہ سمیت تمام علاقوں کے لوگوں کے لیے بنیادی اور جمہوری حقوق کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کر تے ہیں ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے قبائلی علاقہ میں اصلاحات کے لیے سیاسی جماعتوں کی مشترکہ کمیٹی کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ، وفد میں عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب محمد طاہر، بشریٰ گوہر، جماعت اسلامی کے پروفیسرابراہیم ،جمعیت علماء اسلام(ف) حاجی عبدالجلیل جان،نیشنل پارٹی کے مختیار باچا،پاکستان مسلم لیگ(ق) کے اجمل وزیر،پاکستان تحریک انصاف کے عائشہ گلالئی وزیراور قومی وطن پارٹی کے اسد آفریدی شامل تھے، کمیٹی کے ارکان نے بتایا کہ قبائلی علاقہ فاٹا میں 100سال پرانا نظام چل رہا ہے جو فرسودہ ہو چکا ہے یہاں مقامی حکومتوں کے نظام کا تصور تک موجود نہیں ، لوگوں کو بنیادی اور جمہوری حقوق میسر نہیں ، ان کا کہنا تھا کہ فاٹا میں صلاحات ضروری ہیں بصورت دیگر آتش فشاں جیسی صورتحال کسی بھی وقت پھٹ جائے گی، وزیر اعلیٰ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالی تو بلوچستان کی صورتحال انتہائی خراب تھی، امن وامان نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی، مزاحمت اور دہشت گردی کا سامنا تھا، مسائل کا انبار تھیا لیکن ہم نے چیلنجوں کو قبول کیا، وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے آج بھی کوشاں ہیں کہ انہیں اپنارویہ تبدیل کرنا ہوگا، کچھ معاملوں میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی جبکہ بقیہ مسائل طر ہماری کوششیں جاری ہیں ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں متحد اور متفق ہیں ، سب صوبے میں امن چاہتے ہیں ، عسکریت پسندوں اور انتہاء پسندوں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں ، ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اچھی طر ح سمجھتے ہیں کہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل جمہوری طریقے سے حل کیے جاسکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لیے رواں ماہ میں بھی کل جماعتی کانفرنس منعقدکر رہے ہیں ، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ ان کی حکومت اور ان کی پارٹی ملک کے دیگرعلاقوں کی طرح فاٹا میں بھی جمہوری نظام دیکھنے کی خواہش مند ہے، فاٹا کے عوام کو بھی دوسرے علاقوں کی طرح مکمل جمہوری اور بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہئیں، انہوں نے وفدکوبتایا کہ بلوچستان کے نمائندے کی حیثیت سے انہوں نے 18ویں ترمیم کی تیاری میں بھر پور حصہ لیا اور بلوچستان کا موقف تسلیم کروانے میں کامیابی حاصل کی، وزیر اعلیٰ نے اپنی حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن وامان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے، کوئٹہ میں 50فیصد ایف سی چیک پوسٹیں ختم کردی گئی ہیں ، انہوں کہا کہ اربا ب نے ظاہر کاسی کی بازیابی کے لیے حکومت بلوچستان کی دن رات کوشاں ہے ، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں فاٹا کے لوگ ہماری موثر مدد کرسکتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ترجیحی اہمیت دی ہے، تعلیم کے شعبہ کے لیے بجٹ کی 26فی صد رقم مختص کی گئی ہے، رواں سال کے دوران چھ یونیورسٹیاں اور تین میڈیکل کالجز تعمیر کئے جارہے ہیں ، صحت کے شعبے میں تمام ہسپتالوں کو فعال بنادیا گیا ہے، اندرون بلوچستان کے بیشتر ہسپتالوں میں سینئر سر جنز تعینات کردئیے گئے ہیں ، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کی معیشت میں زراعت ، لائیوسٹاک اور معدنیات کی کلیدی اہمیت کی پیش نظر انکی حالت بہتر بنانے پر توجہ دی جارہی ہے، اس وقت توانائی کا بحران ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے، بلوچستان کو 1500میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ ہمیں 600میگاواٹ بجلی مل رہی ہے ، انہوں نے کہا کہ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے نئے ڈیمز بنائے جارہے ہیں ، وزیر اعلیٰ نے اس امر کواطمینان بخش قرار دیا کہ ان کی حکومت نے تمام صوبے سے پہلے بلوچستان میں پرامن اور خوشگوار انداز میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے، انہوں نے بتایا کہ بلدیاتی نظام کا ترمیمی بل کابینہ نے منظور کردیا ہے جسے صوبائی اسمبلی کے رواں اجلاس میں پیش کردیا جائے گا، انہوں نے آواران کے زلزلہ متاثرین کی امداد اور بحالی کی کارروائیوں کے حوالے سے بتایا کہ آواران وہ ضلع ہے جہاں مزاحمت بہت زیادہ تھی لیکن حکومت نے زلزلہ متاثرین کی فوری امداد سے لے کر مکمل بحالی تک کے تمام کام خوش اسلوبی سے انجام دئیے ہیں اور اب بے گھرہوجانے والوں کی دوبارہ سے آباد کاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ آواران کے زلزلہ متاثرین کی فوری امداد سے لے کر مکمل بحالی تک ان کی حکومت اپنے تمام وعدے ہر صورت میں پورا کرے گی، یہ بات انہوں نے جمعہ کے روز آواران میں زلزلہ سے مکمل تباہ یا جزوی طور پر متاثرہ مکانات کی بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے منعقد اجلاس میں کہی، وزیر اعلیٰ نے آواران اور اس کے تحصیل مشکے میں متاثرہ سرکاری اسکولوں ، بی ایچ یو اور ڈسپنسری کی دوبارہ تعمیر و بحالی کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کی سست روی پر برہمی کا اظہار کیا اور حکام کو تنبیہ کی کہ زلزلہ متاثرین کی امداد اور بحالی کے سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، اجلاس میں وزیر اعلیٰ کو آواران ضلع میں زلزلہ سے ہونے والے نقصانات ، متاثرہ عمارتوں اور ان کی بحالی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کی تفصیلات سے آگاہ کیاگیا، انہیں متاثرین کی فوری امداد کے لیے منصوبے اور طویل مدتی ترقیاتی منصوبہ پر عملدرآمد کی رفتار سے آگاہ کیاگیا، اجلاس کو بتایا گیا کہ ضلع آواران میں 30000مکانات مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جن کی از سر نو تعمیر کرنی ہوگی، تیس ہزار مکانات کی تعمیر کا پی سی ون تیار کیا گیا ہے جس کے مطابق منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 7597.841ملین روپے لگایا گیا ہے ، اس کے علاوہ اجلاس کو بتایا گیا کہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے 107.496ملین روپے تعلیمی سہولتوں کے لیے 256.850ملین صحت کی سہولتوں کے لیے 73.880ملین منظور اور جاری کیے جاچکے ہیں ، وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ 30000مکانات کی تعمیر کے لیے صوبائی حکومت کے وسائل کافی نہیں اور اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت ، مخیر حضرات اور اداروں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض نے 300مکانات پر مشتمل ماڈل ٹاؤن بنانے کا اعلان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اسی طرح دیگر مخیر حضرات اور اداروں کو بھی زلزلہ متاثرین کی بامعنی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے، ضلع آواران میں بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے حوالے سے انہوں نے متعلقہ حکام پر زور دیا کہ وہ ترقیاتی کام تیز کریں اور حکومت کے عزم کے مطابق آواران کے عوام کو جلد از جلد سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائیں۔