|

وقتِ اشاعت :   April 28 – 2018

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سے صوبائی وزراء نے ملاقات کی،ملاقات میں چار اضلاع نوشکی، چاغی، خاران اور واشک پر مشتمل رخشاں ڈویژن کے قیام کے سلسلے میں تبادلہ خیا ل کیا گیا، جس پروزیر اعلیٰ نے کہا کہ نوشکی، چاغی ، خاران اور واشک کا رقبہ وسیع اور آبادی بھی زیادہ ہے، ان علاقوں پر مشتمل نئے ڈویژن کے قیام سے لوگوں کی درپیش مشکلات میں کمی آئی گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سینئر ایم بی آر سے سمری طلب کی گئی ہے اور جلد اس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جائیگا۔ دریں اثنا وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ضلع نوشکی میں مل اور احمد وال کو تحصیل کا درجہ دینے کا بھی اعلان کیا۔اس سے قبل بھی گزشتہ صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ اضلاع اور ڈویژنوں کی از سر نو حد بندکی جائے گی۔ مجموعی طورپر یہ ایک اچھا عمل ہے اس کا مقصد انتظامیہ کی کارکردگی کو بڑھانا اوراس کو زیادہ موثر بنانا ہے۔ 

گزشتہ حکومتوں نے اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ میں آکر درجن بھر سب تحصیلوں کو اضلاع کا درجہ دیااس طرح سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھا دیا۔ بیس سال قبل ایک علاقے کو ضلع کا درجہ دیا گیا مگر آج تک حکومت وہاں ضروری دفاتر ‘ اسپتال ‘ اسکول ‘ تعلیمی ادارے قائم نہیں کر سکی۔

نائب تحصیل دار کے گھر کو ڈپٹی کمشنر کا گھر بنا دیا گیا ، سب تحصیل آفس کو ڈپٹی کمشنر کا دفتر بنا دیا گیا ،اس طرح کے غلط فیصلوں کی وجہ سے انتظامی اخراجات پر کم سے کم پچاس ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ ان میں سے اکثر سابق سب تحصیلوں کی آبادی چند ہزار تھی جب ان کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔

دو سیاسی جماعتوں نے حکومت بلوچستان پر دباؤ ڈالا کہ پشتون علاقوں میں اضلاع کی تعداد کو بلوچ سرزمین کے برابر لایا جائے چنانچہ ان کے رہنماؤں کے دھونس اور دباؤ کے تحت چند ہزار افراد پر مشتمل سب تحصیلوں کو ضلع کادرجہ دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے تمام ا فغان علاقوں کا رقبہ سابق خاران کے رقبے سے کم ہے اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہوئے صوبائی حکومتوں نے وہاں تقریباً سات نئے اضلاع صرف اور صرف سیاسی دباؤ کے تحت بنائے۔بلوچستان ایک وسیع و عریض خطہ ہے یہاں پر بڑ ے بڑے انتظامی یونٹ ہی ہونے چاہئیں۔

سب تحصیل کو ضلع کا درجہ دینے کا واحد مقصد علاقے کی سیاسی لیڈر کی واہ واہ کرانی ہے لیکن اس کا منفی اثر یہ ہوگا کہ بلوچستان جیسے غریب ترین صوبہ کے انتظامی اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا۔اگر ان اضلاع کا دورہ کیاجائے تواندازہ ہوگا کہ ڈپٹی کمشنر کی رٹ لیویز کے چار سپاہیوں تک محدود ہے اکثر ان چھوٹے اضلاع کے ڈپٹی کمشنر ز کوئٹہ میں رہتے ہیں اپنے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں نہیں جاتے۔ قانونی طورپر وہ ڈیوٹی سے غیرحاضر رہتے ہیں ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل رخشان علاقے کے اراکین اسمبلی نے ایک قرار داد پیش کی تھی کہ خاران ‘ نوشکی ‘ چاغی اور واشک پر مشتمل نیا ڈویژن بنایاجائے جس کا ہیڈ کوارٹر نوشکی ہو یہ ایک اچھی تجویز تھی لیکن اس تجویز کوپختونخوا کے لیڈر رحیم زیارتوال نے ویٹو کردیا۔

یہ سابقہ حکومت اور حکومتی جماعت کا ایک امتیازی سلوک تھا کہ بلوچ علاقے میں نیا ڈویژن نہ بنایاجائے جبکہ پشتون علاقے میں سات سب تحصیلوں کو اضلاع کا درجہ سیاسی بنیادوں پر دیا گیا جہاں ہر تحصیل کی آبادی چند ہزار تھی۔ ضروری ہے کہ اضلاع اور ڈویژنز کی دوبارہ حد بندی کی جائے اور رخشان انتظامی ڈویژن کے قیام میں مزید تاخیر نہ کی جائے نیز دیگر تمام چھوٹے چھوٹے اضلاع کوختم کیاجائے جنھیں سیاسی دباؤ کے تحت بنایا گیا تھاجبکہ حقیقت میں ان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

نئی حد بندیوں کا بنیادی مقصد یہ ہو کہ بلوچستان کے انتظامی اخراجات کم سے کم ہوں تاکہ زیادہ وسائل ترقی پر خرچ کیے جاسکیں۔ بنیادی طورپرماضی کی حکومتوں کی توجہ زیادہ سے زیادہ غیر ترقیاتی اخراجات پرر ہی۔

انہوں نے کبھی بھی اس بات پر توجہ نہیں دی کہ صوبے کی آمدنی میں کس طرح اضافہ کیاجائے اورزیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرکے معاشی ترقیاتی اخراجات کو پورے کیے جائیں۔

موجودہ حکومت نے ایک اچھا اقدام اٹھانے کافیصلہ کیا ہے جسے جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے، یہ نہ ہو کہ آنے والی نئی حکو مت پھر کسی سیاسی دباؤ کی وجہ سے نوشکی، چاغی ، خاران اور واشک کے وسیع رقبہ پر مبنی رخشان ڈویژن کے قیام کو سیاسی اتحادیوں کی بلیک میلنگ میں آکر منسوخ کردے اور اپنے ہی لوگوں کی مشکلات کو نظر انداز کردے ۔ لہذا اس فیصلے پر جتنا جلد ممکن ہو ،عملدرآمد کیا جائے ۔