کوئٹہ : صوبائی مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ ہا شمی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حجم کا تخمینہ 350 ارب روپے سے زائد ہوگا جس کے لیے تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئیں آئندہ مالی سال 19-2018 کا صوبائی بجٹ 8 مئی کو پیش کیا جائے گا آئندہ سال کا بجٹ ٹیکس فری ہوگا اور اس میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا ہے۔
بجٹ میں پہلے کی طرح تعلیم،صحت اور امن وامان کو زیادہ ترجیح دی جائیگی مخلوط حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقوں تاجروں، زمینداروں، ڈاکٹرز، انجینئرز سے لے کر ریڑھی بانوں تک کو بجٹ میں شامل کیا جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے بات چیت کر تے ہو ئے کیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حجم کا تخمینہ 350 ارب روپے سے زائد ہوگا جس کے لیے تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئیں مخلوط حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقوں تاجروں، زمینداروں، ڈاکٹرز، انجینئرز سے لے کر ریڑھی بانوں تک کو بجٹ میں شامل کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق نئے سال کا بجٹ بھی خسارے کا ہی ہوگا، خسارہ لگ بھگ پچاس ارب روپے تک ہونیکا امکان ہے جسے اخراجات میں کمی اور سادگی سمیت مختلف اقدامات کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی بجٹ کی تیاریوں کے حوالے سے متعلقہ محکموں کے زیر اہتمام گزشتہ ہفتے پری بجٹ مشاورتی ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں متعلقہ صوبائی حکام کے علاوہ سول سوسائٹی اور ماہرین منصوبہ بندی اور خزانہ نے شرکت کی تھی ۔
بجٹ کے حوالے سے ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے بتایا کہ بجٹ کے لیے مخلوط حکومت میں شامل اراکین سے مشاورت جاری ہے اور اس سلسلے میں صوبے کے مختلف طبقوں کے افراد سے بھی مشاورت کی گئی ہے ۔
انہوں نے کہا ہے کہ ڈاکٹر رقیہ سعید کے مطابق بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کا حجم 90 ارب روپے تک ہونے کا امکان ہے جب کہ مالی سال 18-2017 کے بجٹ کا ترقیاتی پروگرام تقریبا 86 ارب روپے پر مشتمل تھامشیرخزانہ نے بتایا آئندہ سال کا بجٹ ٹیکس فری ہوگا اور اس میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا ہے۔
بجٹ میں پہلے کی طرح تعلیم،صحت اور امن وامان کو زیادہ ترجیح دی جائیگی ڈاکٹر رقیہ سعید کا کہنا ہے کہ کوشش کی گئی ہے کہ بجٹ میں اجتماعی نوعیت کی اسکیموں کوہی شامل کیا جائے اور انفرادی اسکیموں کو بجٹ میں شامل نہ کیا جائے۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے یہ بھی بتایا کہ رواں سال کے ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے بیشتر رقم جاری کی جاچکی ہے دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق صوبائی حکومت کو بجٹ پیش کرنے اور منظور کروانے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ایسا اس لئے ہے کہ ایوان میں حکومتی اراکین کی تعداد کم جب کہ حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے لیکن مشیر خزانہ پرامید ہیں کہ اس سے حکومت کو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔بلوچستان اسمبلی میں اس سے پہلے نواب اکبر بگٹی کے دور میں بھی یہی صورتحال تھی دوسری جانب صوبے میں عام افراد کی بجٹ سے کافی امیدیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت بجٹ پیش کر رہی ہے بہت اچھی بات ہے مگر اس کے اثرات عام افراد تک پہنچنا چاہیءں، بجٹ صرف اعداد و شمار کا ہیر پھیر نہیں ہونا چاہیے۔
عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ صحت، تعلیم اور امن و امان کے علاوہ مختلف سماجی شعبوں کے لئے مختص کی گئی بھاری رقوم واقعتاعوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی پرخرچ ہونی چاہیے نہ کہ ترقیاتی منصوبے اور اسکیمیں صرف کاغذوں تک محدود رہیں۔
ذرائع کے مطابق نئے سال کا بجٹ بھی خسارے کا ہی ہوگا، خسارہ لگ بھگ پچاس ارب روپے تک ہونیکا امکان ہے جسے اخراجات میں کمی اور سادگی سمیت مختلف اقدامات کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔