دوروزقبل بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے دو مختلف علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات کے نتیجے میں 23 مزدور جاں بحق ہوئے ۔
کان کنوں کی مزدور تنظیم نے ناقص حفاظتی انتظامات پر احتجاج کیا۔یہ حادثات مارواڑ اور اسپن کاریز کے قریب سنجدی کے علاقوں میں پیش آئے۔کوئٹہ سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر مارواڑ کے علاقے میں تین کانوں میں 24 سے زائد کان کن کام کررہے تھے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق کان میں زور دار دھماکے کے باعث تینوں کانوں میں کام کرنے والے تمام کان کن پھنس گئے۔حکام کاکہنا ہے کہ دھماکہ کان میں گیس بھر جانے کی وجہ سے ہوا۔مارواڑ میں پھنسے کان کنوں میں سے 9 زیادہ گہرائی میں نہیں تھے جس کے باعث وہ زخمی ہو گئے تھے۔
ان زخمیوں کو نکالنے کے بعد علاج کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا اور ابتدا ئی طبی امداد کے بعد ان کو فارغ کردیا گیا۔کان میں کام کرنے والے مزدوروں کا تعلق خیبر پختوانخوا کے علاقے شانگلہ اور سوات سے تھا۔
مارواڑ اور سنجدی کے کانوں میں رونما ہونے والے حادثات نیزکوئلہ کانوں میں سیفٹی کے جدید اور مناسب انتظامات نہ ہونے کے خلاف پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ سیفٹی کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ان کانوں میں حادثات اب روز کا معمول بن گئے ہیں۔
انہوں نے کوئلے کی کانوں میں حادثات کی ایک بڑی وجہ ٹھیکیداری نظام کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹھیکیدار اپنے آپ کو سیفٹی یا مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ 2010 سے لیکر اب تک بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے واقعات میں 200 سے زائد کان کن اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ معدنیات بھی سیفٹی اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہی ۔ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو اس کا ازخود نوٹس لینا چائیے تاکہ حادثات کے ذمہ دار افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جاسکے۔
گزشتہ ماہ بھی سوراب اور دکی کے علاقوں میں کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے حادثات کے باعث 8 سے زائد کان کن جاں بحق ہوئے تھے۔بلوچستان کی سب سے بڑی صنعت کوئلے کی ہے۔
کوئلے کی کانیں بلوچستان میں زیادہ تر کوئٹہ، ہرنائی،دکی اور کچھی کے اضلاع میں ہیں۔ان کانوں میں 60 ہزار افراد کام کرتے ہیں لیکن حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث ان کانوں میں حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے اتنی بڑی صنعت سے انتہائی زیادہ منافع کمانے کے باوجود مزدوروں کی حفاظت کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے اس لئے آئے روز کوئلہ کی کانوں میں خطرناک حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ اس کا سختی سے نوٹس لے اور محکمہ معدنیات کے ذمہ داران سے احتیاطی تدابیر کے حوالے سے مکمل رپورٹ طلب کرنے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے قیمتی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے سختی سے پابندکیاجائے۔
کوئلہ کی کانوں میں ٹھیکیداری نظام بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس سے سستے لیبر باآسا نی دستیاب ہوتے ہیں ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے ہمارے یہاں مزدوروں کو نہ صرف جانی بلکہ مالی حوالے سے بھی نقصان کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
کوئلے کے کانوں میں مزدوروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ صنعت انسانی زندگیوں کے لیے انتہائی جان لیواثابت ہورہا ہے۔
ضروری ہے کہ حکومت مزید کوتاہی کا مظاہرہ نہ کرے اور اپنی ذمہ داریوں سے جان نہ چھڑائے۔ ٹھیکیداروں کی جیبوں سے کچھ رقم مزدوروں کے لیے بھی نکالے ۔حفاظتی انتظامات میں کمی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
نیز حادثات کی صورت میں مرنے والوں کے لواحقین کو ایک مناسب رقم کی ادائیگی یقینی بنائی جائے اور معذور ہونے والوں کے علاج کی ذمہ داری کان کے مالک کے ذمہ لگائی جائے اور اسے ایک قابل قدر ماہانہ تنخواہ دیا جائے تاکہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچ جائے۔
کانوں حادثات اور ہلاکتیں
وقتِ اشاعت : May 8 – 2018