اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوجی افسران کی سول سروسز میں تعیناتی پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے جواب طلب کرلیا۔
آرمڈ فورسز کے حاضر سروس آفیسرز کی سول سروسز میں تعیناتی کے معاملے کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ شاہد امان نامی شہری کی درخواست پر سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی۔
عدالت نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے 6 سوالات کا جواب مانگ لیا جب کہ سیکریٹری دفاع اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین ایف پی ایس سی کو 14 مئی تک سوالات کا جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
ہائی کورٹ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات
پہلا سوال : کن بنیادوں پر آرمڈ فورسز کے افسران کو سول سروس میں تعینات کیا جاتا ہے؟
دوسرا سوال : کیا آرمڈ فورسز کے افسر کے لیے سول سروس میں کوئی کوٹا مختص ہے؟ اگر مختص ہے تو کیا آرمڈ فورسز کے افسران مقابلے کے امتحان میں شریک ہوتے ہیں ؟
تیسرا سوال: کیا مقابلے کے امتحان میں منتخب کامیاب افسر فورس سے ریٹائرمنٹ لیتے ہیں؟
چوتھا سوال : دوران تربیت کوئی کیڈٹ سول سروس جوائن کرتا ہے تو ملٹری اکیڈمی سے ریلیز کا کیا طریقہ کار ہے؟
پانچواں سوال: کیڈٹ کو جانے کی اجازت دینے کے بدلے کتنی رقم وصول کی جاتی ہے؟
چھٹا سوال : ایک میجر یا کیپٹن پر حکومت پاکستان کا کتنا خرچ آتا ہے، کیا سول سروس جوائن کرنے کی صورت میں یہ رقم واپس لی جاتی ہے؟