|

وقتِ اشاعت :   May 9 – 2018

ان دنوں نظریاتی سیاست کی باتیں عروج پر ہیں جب سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے تب سے وہ نظریاتی سیاست کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب نظریاتی سیاست کررہے ہیں۔ اسی بیانیہ کو لیکر تمام حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ ی ہے۔

وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد تاحیات نااہلی کونواز شریف نے سازش قراردیااور ہر جگہ یہی سوال اٹھایا کہ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ یہ فقرہ ملک بھر میں بہت مقبول ہوگیااور اس حوالے سے طنزیہ جملے میڈیا اور سوشل میڈیا پرسنائی دینے لگے۔ 

میاں محمد نواز شریف نے مختلف جلسوں کے دوران عدلیہ کے فیصلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ساتھ ہی اپنے سیاسی حریفوں پر بھی گولہ باری کی۔انہوں نے ایک بار پھر اپنا بیانیہ تبدیل کرتے ہوئے کہاکہ اب میں نظریاتی سیاست کررہا ہوں مگر یہ واضح نہیں کہ کونسا نظریاتی ایجنڈا میاں نواز شریف لیکر آئے ہیں .چونکہ دنیا میں سیاسی اور معاشی نظریے متعارف ہوئے اور مقبولیت حاصل کی اور وقت کے ساتھ ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔ 

گوکہ اب بھی دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا نظریہ اپنی جگہ موجود ہے مگر بائیں بازو کی سیاست اپنا اثر ختم کرچکی ہے جو بیک وقت ایک سیاسی اور معاشی نظام تھا ۔ میاں محمد نواز شریف کا نعرہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ پر ہے ۔

اب ذرا تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں تو 1998ء میں میاں محمد نواز شریف کی مرکزی حکومت نے بلوچستان میں سردار اختر مینگل کی حکومت کو ختم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ۔ اختر مینگل کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مسلم لیگ نے لائی، جو اس کی اتحادی بھی تھی۔ اس دوران میاں محمد نواز شریف نے بیان دیا کہ یہ صوبے کا اندرونی معاملہ ہے یوں موصوف درپردہ اس سارے عمل کا حامی رہا۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت ووٹ کی عزت اور وقار مجروح نہیں ہوا ۔ 

بینظیر بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے پر شادیانے کس نے بجائے، پیپلزپارٹی کے دووزرائے اعظم کو نااہل قرار دیا گیا اس عمل پر کس جماعت نے ملک بھر میں جشن منایا۔ میاں محمد نواز شریف کی سیاست ہمیشہ انہی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ 

المیہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف اپنی تقاریر میں جتارہے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم اور انکی کابینہ کتنی با اختیار ہے اور اپنے ہی جماعت کے وزیراعظم اور حکومت کو ڈمی قرار دے رہے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو دہرارہے ہیں کہ عام انتخابات میں کامیابی کی صورت میں تاحیات نااہلی کے قانون کو ختم کردیا جائے گا یعنی وہ اپنے لئے تمام راستے صاف کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ووٹ کو عزت دو کی تحریک صرف ان کی اپنی ذات تک محدود ہے۔ 

میاں محمد نواز شریف کسی ایک موقف پر قائم دکھائی نہیں دیتے اب انہوں نے ایک نئی اصطلاح دہرانا شروع کردیا ہے کہ میر امقابلہ زرداری اور عمران خان سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے۔ اس سے قبل انہوں نے دونوں سیاسی حریفوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا،عمران خا ن کو لاڈلہ کا لقب دیاجبکہ آصف علی زرداری پر بلوچستان حکومت کی تبدیلی سمیت سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگائے اب ان دونوں کی بجائے نواز شریف خلائی مخلوق سے مقابلے کا ذکرکررہے ہیں ۔

شاید میاں محمد نواز شریف کی اس سے قبل خلائی مخلوق سے بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کا ذکر کرتے ہوئے عوام کو متوجہ کررہے ہیں اور آنے والے حالات کی پیش بینی کر رہے ہیں کہ وقت آنے پر خلائی مخلوق سے مکمل آگاہی فراہم کرینگے ۔ بہرحال میاں محمد نواز شریف خود کو اہل قرار دینے کیلئے تمام کارڈز کھیلنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں ۔ 

اس میں موصوف کی کامیابی کے حوالے سے فی الوقت کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ حرف آخر یہ کہ پاکستان میں ہمیشہ نظریہ مفادات کی سیاست کا چلن رہا ہے نواز شریف اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ نظریاتی سیاست کرنے والوں نے ایوانوں میں بیٹھنے کی بجائے محکوموں کے حقوق کیلئے جدوجہد کو ترجیح دی۔