|

وقتِ اشاعت :   May 10 – 2018

لورالائی : صوبہ کے تمام اضلاع کے رسالدارمیجرزسردار عبداللطیف خان جوگیزئی رسالدار میجر لیویز فورس لورالائی ، سردار رحمت اللہ موسیٰ خیل رسالدار میجر لیویز فورس موسیٰ خیل، گل محمد کاکڑ رسالدار میجر لیویز فورس ڈسٹرکٹ کوئٹہ ، ،علی محمد ترین رسالدار میجر لیویز فورس پشین،خان نصیب اللہ خان اچکزئی رسالدار میجر قلعہ عبداللہ،سردار اسحاق مینگل رسالدار میجر لیویز نوشکی،سردار اکبر خان سنجرانی رسالدار میجر دالبندین،میر جہانگیر شاہ رسالدار میجر بارکھان،روز محمد کاکڑرسالدار میجرزیارت،میر شہباز خان باروزئی رسالدار میجرسبی اور لیویز فورس کے دیگر آفیسران اور اہلکاروں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم صوبہ کے تمام رسالدار میجرزودیگر لیویز فورس کے آفسران ،اہلکاران،دوبارہ بی ایریا کو اے ایریا میں کسی صورت ضم کرنے نہیں دینگے اور نہ ہی مزید صوبہ کے حالات تجربات کے متحمل ہو سکتا ہے ۔

2002 سے لیکر2007 تک بلوچستان میں بی ایریا کو اے ایریا یعنی پولیس میں ضم کیا گیا جس پر قومی خزانے سے 9 ارب روپے خرچ کئیے گئے جو کرپشن کی نظر ہوگئے جس میں سابقہ ڈی آئی جی پولیس ریاض احمد ملوث پائے گئے جس کا کیس اب بھی نیب بلوچستان میں زیر سماعت ہے ۔

ایک دفعہ پھر بلوچستان کے عوام کی پر سکون زندگی اور قبائلی روایات کو پس پشت ڈال کر امن وامان کو خراب کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے اور بلوچستان کی عوامی رائے کو مسترد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلوچستان میں لیویز فورس کی کاوشوں اور قربانیوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے جو کہ دو انگلیوں سے سورج کو چھپانے کے مترادف ہے کے پی کے میں لیویز فورس کی طرح وسائل پرموشن اور دیگر مراعات دے چکے ہیں ۔

لیکن بلوچستان لیویز فورس کو وسائل پرموشن اور مراعات دینے کے بجائے لیویز فورس کو صرف کرپشن اور تجربات کے لئیے استعمال کر رہے ہیں 2007 سے لیکر 2010 تک پولیس کے کارنامے ملکی عوام سیاسی پارٹیوں اور اعلی عدلیہ نے دیکھ لیے بلکہ تسلیم بھی کر لیے کہ پولیس فورس صوبے میں ناکام رہی اور دن بدن جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا جسکی وجہ سے اعلی عدلیہ اورسابق صوبائی حکومت نے لیویز فورس کی بحالی کے لئیے نئے ایکٹ کے تحت لیویز فورس کو بحال کر دیا ۔

صوبے کی عوام اور مختلف مکتبہ فکر نے سکھ کا سانس لیا آج پھر لیویز فورس کو پولیس میں ضم کیا جارہا ہے اگر ایسا کیا گیا تو ہم تمام لیویز فورس کے رسالدار میجر واہلکاران قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔