|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2018

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدالت یہ محسوس کرتی ہے کہ ہزارہ قبیلے کی نسل کشی ہو رہی ہے جس پر عدالت کو اس معاملے کا ازخود نوٹس لینا پڑا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہزارہ قبیلے کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی مذمت کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔

ہزارہ قبیلے کی جانب سے بیرسٹر افتخار نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ 20 سال سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے لیکن ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آرہی ۔انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 2008 میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے جن میں 208 افرادجاں بحق ہوئے۔ 

سکیورٹی اداروں کی کوششوں کی وجہ سے اب ان واقعات میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔آئی جی پولیس نے بتایا کہ رواں سال کے چار ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے 9 افرادجاں بحق ہوئے۔بیرسٹر افتخار نے بتایا کہ اگر 2013 کے سکیورٹی پلان پر عملدرآمد کیا جائے تو یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ 2013 میں تیار کیے جانے والے پلان کو 2018 کی صورتحال سے ہم آہنگ کیا جائے اور وہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دیں گے جو کہ تمام معاملات کا جائزہ لے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی طرح بھی یہ نہیں چاہتی کہ قبیلے کے لوگوں کو غیر مطمئن واپس بھیجا جائے،انہوں نے ہدایت کی تمام انٹیلی جنس ادارے رپورٹ دیں کہ ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ کس طرح کی جارہی ہے۔

پاکستان کے قومی کمیشن برائے حقوق انسانی کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 500 سے زیادہ ہزارہ قبیلے کے افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ ہزارہ تنظیموں کے مطابق ان کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔

عدالت نے ہزارہ قبیلے کے وکیل کو ہدایت کی وہ تمام متاثرین اور دیگرافراد کی درخواستوں پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کرکے عدالت کو پیش کریں تاکہ معاملے کا حل نکالا جاسکے۔چیف جسٹس نے ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق 15 یوم میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ازخود نوٹس کی سماعت رمضان المبارک کے بعد تک ملتوی کر دی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے حالات مخدوش ہوئے ہیں اس سے قبل یہاں کسی قسم کی فرقہ وارانہ دہشت گردی کا تصور ہی نہیں تھا بلکہ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شیر وشکرہوکے رہتے تھے اور بلوچستان کے کلچر میں اس قسم کے انسان کش کردار کی گنجائش تک نہیں مگر چند عناصر بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے یہاں مذہبی دہشت گردی پھیلارہے ہیں۔

خاص کر اس کے پیچھے بیرونی ممالک کا کردارہے جو پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جس کی نشاندہی بارہا مختلف اوقات میں نہ صرف سول بلکہ عسکری حکام بھی کرچکے ہیں ۔بلوچستان میں سیکیورٹی کے پیش نظر افغان سرحد سے منسلک علاقوں میں باڑ لگائے جارہے ہیں تاکہ دہشت گرد سرحد پار کرکے یہاں داخل ہوکر تخریبی کارروائیاں نہ کریں۔

اگر دیکھا جائے تو یہ صرف ہزارہ برادری کا مسئلہ نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کا ہے جو گزشتہ کئی عرصوں سے دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ بلوچستان میں بدامنی کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی تارکین وطن بھی ہیں ۔

لیکن افسوس کہ اس حوالے سے اب تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا کہ ان کو پکڑ کر واپس بھیج دیاجائے کیونکہ وہ یہاں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں اور ہمارے معاشی وسماجی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کررہے ہیں ۔اس لئے صوبائی حکومت مرکز سے اس حوالے سے بات چیت کرے تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جاسکے۔