|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2018

پیرکے روز سے شروع ہونے والی غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 55 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کے بعد منگل کو اقوام متحدہ میں فلسطینی اور اسرائیلی مندوبین کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

فلسطینی نمائندے نے کہا کہ اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرم کیا ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیلی مندوب نے فلسطینی تنظیم حماس پر الزام لگایا کہ اس نے اپنے ہی لوگوں کو قید میں رکھا ہوا ہے۔اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں کونسل کی پولش صدر جوانا رونیکا نے غزہ میں شہید ہونے والے افراد اور طویل عرصے سے جاری تنازع میں جان کی بازی ہارنے والے افراد کی موت پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی۔

اجلاس میں متعدد ممالک نے غزہ میں ہونے والے شدت پسند واقعات پر اپنے خدشات کا اظہار کیا اور اس کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔فلسطین کے اقوام متحدہ میں نمائندے ریاد منصور نے اسرائیل کی جانب سے برپا کیے جانے والے نفرت انگیز قتل عام کی شدید مذمت کی اور اسرائیلی فوجی آپریشن کو روکنے کے علاوہ بین الاقوامی تحقیق کرانے کا مطالبہ کیا۔

ریاد منصور نے اقوام متحدہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاکہ ماضی میں ہونے والے واقعات کی کوئی تحقیقات نہیں کرائی گئی۔دوسری جانب اسرائیل کے مندوب ڈینی ڈانن نے کہا کہ غزہ کی سرحد پر ہونے والے واقعات مظاہرے نہیں تھے بلکہ وہ تشدد پر مبنی ہنگامے تھے۔

انہوں نے فلسطینی تنظیم حماس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ غزہ کے عوام کو قیدی بنا کر رکھا ہوا ہے۔حماس لوگوں کو تشدد پر مجبور کرتی ہے اور عام شہریوں کو سامنے لاتی ہے جس سے ان کے مرنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ اسرائیل پر الزام لگاتے ہیں۔

اجلاس میں دوسرے ممالک نے بھی غزہ میں ہونے والے واقعات پر کڑی تنقید کی ہے۔جرمنی، برطانیہ، آئرلینڈ اور بیلجیئم نے آزادانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور آئرلینڈ نے اپنے ملک میں اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔غزہ میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تدفین کے بعد مظاہرے شروع ہوچکے ہیں جو کہ ایک فطری عمل ہے جس بے رحمانہ طریقے سے اسرائیلی فوج اندھا دھند فلسطینیوں پر فائرنگ کررہی ہے اس سے ہلاکتوں میں انتہائی اضافے کا خدشہ ہے۔اور اب تک فائرنگ سے2000 سے زائدافراد زخمی ہوئے ہیں۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق شہید افراد کی تدفین اسرائیل کے قیام کی 70ویں سالگرہ پر ہو رہی ہے۔ یہ وہ دن ہے جسے فلسطینی ‘نکبہ’ قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب تباہی ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد بڑی تعداد میں فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔غزہ کے مرکزی ہسپتال شفا میں پیر کے روز زخمی ہونے والے افراد کو خون کا عطیہ دینے کے لیے قطاروں میں لوگ کھڑے تھے۔پیر ہی کو امریکہ نے یروشلم میں اپنے سفارت خانے کا باضابطہ افتتاح کیا ۔ اس متنازع منصوبے کی بہت سے ملکوں نے مخالفت کی تھی۔

فلسطینی حکام نے کہا ہے کہ شہید ہونے والوں کے علاوہ 27 سو سے زائد لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں جو کہ فلسطینیوں کی نسل کشی ہے، یہ غزہ میں 2014 میں ہونے والی جنگ کے بعد سے مہلک ترین دن تھا۔تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے اپنی فوج کے اقدامات کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ وہ غزہ کی شدت پسند تنظیم حماس کے خلاف اپنا دفاع کر رہی تھی۔فلسطینیوں نے 1948 میں اسرائیل کے قیام کے 70 سال مکمل ہونے پر احتجاجی مظاہرے کیے۔

فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے تنبیہ کی ہے کہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے سے مشرق وسطیٰ مزید عدم استحکام کا شکار ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے امریکی انتظامیہ نے امن کے عمل میں اپنا کردار منسوخ کر دیا ہے اور دنیا، فلسطینی عوام، اور عرب دنیا کی بے عزتی کی ہے۔فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی وافا کے مطابق پی ایل او کی ایکزیگٹیو کمیٹی کے رکن وصل ابو یوسف نے فلسطینی علاقوں میں مکمل ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ فیدریکا موگرینی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کی باڑ کے نزدیک جاری مظاہروں میں درجنوں فلسطینی جن میں بچے بھی شامل تھے اسرائیلی فائرنگ سے شہید ہوئے ہیں اب ہم مزید جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے سب سے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرنے کی توقع کرتے ہیں۔فرانس کے صدر امانوئل میکخواں نے بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے کی گئی جارحیت کی مذمت کی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زید رعد الحسین نے اسرائیلی فوج کی براہ راست فائرنگ سے شہید ہونے والے درجنوں افراد کی شہادت کی شدید مذمت کی ہے۔ترکی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں امریکہ اور اسرائیل پر اس جارحیت کا مشترکہ الزام عائد کیا گیاہے اور اپنے سفیر دونوں ممالک سے واپس بلانے کا اعلان بھی کیاہے۔

ترکی کے علاوہ جنوبی افریقہ نے بھی اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیمیں ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی فوج کی جانب سے طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے۔

پوری دنیا کے سامنے اب یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ غزہ میں جو خونی کھیل کھیلاجارہاہے اس میں برائے راست امریکہ بھی ملوث ہے امریکہ نے ایک سازش کے تحت یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دیا اور وہاں اپنا سفارتخانہ کھول دیا جس کے بعد وہ مشرق وسطیٰ پر اپنا اثرورسوخ بڑھائے گا اور مزیدمظلوم و نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنائے گا ۔ 

مسلم ممالک میں اس حوالے سے شدید غم وغصہ پایاجاتا ہے اب وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلم ممالک بھرپور طریقے سے اقوام متحدہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کریں کیونکہ آج پوری دنیا فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے کسی ایک بھی ملک نے سوائے امریکہ کے اسرائیلی جارحیت کا دفاع نہیں کیا ۔ 

موجودہ صورتحال کے دوران اگر اقوام متحدہ نے مؤثر کردار ادانہیں کیا تو یہ جنگ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے گا جس کا ذمہ دار امریکہ ہوگا۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اب اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے جسے روکنے کیلئے عالمی برادری کو بھی آگے بڑھنا ہوگا ۔

نام نہاد امن کے داعی امریکہ سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی جس نے مسلم ممالک میں عرصہ دراز سے مداخلت کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے۔اب سب سے بڑا کردار مسلم ممالک کا ہے جنہیں ٹھوس اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنا ہوگا تاکہ اس بربریت کو روکا جاسکے۔