کوئٹہ قلت آب کا شکار ہے۔ شہرکے بیشتر علاقے پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ شہر میں پانی کی قلت ہمیشہ سے رہی ہے جس کی بڑی وجہ غیر قانونی ٹیوب ویل ہیں جس سے معاملہ زیادہ سنگین ہوگیا ہے ۔ پانی کی قلت کی بہت سی وجوہات ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ زیر زمین پانی کی سطح کا تیزی سے گرنا ہے ، روز بروز زیر زمین پانی کا ذخیرہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔
آئندہ چند سالوں کے دوران خطرہ ہے کہ یہ پورا علاقہ ریگستان میں تبدیل ہوجائے گا کیونکہ پانی کی قلت لوگوں کو کوئٹہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کرے گی۔افسوسناک بات یہ ہے کہ گزشتہ ستر سالوں سے پانی کے ذرائع کو ترقی دینے کی کوشش نہیں کی گئی ، بغیر کسی منصوبہ بندی کے بے شمارٹیوب ویل نصب کیے گئے اورپانی کا تجارتی بنیاد پربے دریغ استعمال سے شروع ہوا جو آج رکنے کا نام نہیں لے رہا،یہاں تک کہ ماضی کے کرپٹ وزراء نے ایسی مشینری درآمد کرنے کی کوشش کی جس سے تباہی کے امکانات اور زیادہ ہوتے۔ا
یسی مشینری نصب کرنے کا مقصد زیادہ گہرائی سے پانی کا حصول تھا جو ماحولیات کے لئے شدید خطرہ ثابت ہوسکتا تھالیکن حالات اب بھی دگرگوں ہیں پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔پانی کی قلت کی ایک اور وجہ شہر میں آبادی میں بے تحاشہ اضافہ بھی ہے جو افغان مہاجرین کے آمد کی وجہ سے ہوئی۔ہماری حکومت کوافغانستان کی خوشنودی چائیے اس لیے مہاجرین کو بار بار نکالنے کے اعلانات کے باوجود نہیں نکالا جارہا اور ان کے قیام کی مدت میں توسیع پہ توسیع کی جارہی ہے۔
افغانستان سے آنے والے تارکین کا پہلا اور آخری مسکن کوئٹہ ہے۔ پندرہ لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن بلوچستان کے دارالحکومت میں موجود ہیں جو بلوچستان کے محدود وسائل پر زبردست بوجھ ہیں اگران پندرہ لاکھ تارکین وطن کو دوردراز علاقوں اور افغانستان سرحد کے قریب کیمپ میں رکھا جائے توکوئٹہ کے وسائل پر دباؤ کم ہوجائے گا۔اگر ان غیر قانونی تارکین وطن کو دوبارہ افغانستان واپس بھیجنے کے انتظامات کیے جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ سیاسی دباؤ برداشت نہ کرے اور نئی اور غیر قانونی آبادی کی اجازت نہ دے۔
جہاں تک غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کی بات ہے تو ہمارے سابق وفاقی وزیر خارجہ گھبراتے ہوئے امریکا سے درخواست کرتے نظر آئے کہ وہ افغانوں کو واپس لے جائیں پھر ہم گارنٹی دینے کو تیار ہیں۔
انہوں نے اس بات کو تسلیم کیاکہ افغان تارکین وطن دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ قلت آب کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ گندے پانی کو دوبارہ استعمال میں لایاجائے۔
گند ے پانی کو جمع کرنے کے بعد صاف کیاجائے اور اس کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایاجائے۔اس فلٹر شدہ پانی کو پھل کے باغات اور سبزیاں اگانے کے علاوہ صفائی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ تجارتی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیاجاسکتا ہے۔اس طرح صاف اور تازہ پانی کو پینے اور گھریلو استعمال کے لئے مخصوص کیاجا سکتا ہے جس سے پانی کی قلت کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوجائے گا۔
گزشتہ بجٹ میں تیس ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی تھی کہ اس سے دریائے سندھ سے کوئٹہ کو پانی پہنچایاجائے گا۔ ہمیں معلوم تھا کہ یہ اسکیم قابل عمل نہیں ہے اور اگر قابل عمل بھی ہوتو اس کو چلانے کے لئے سالانہ اربوں روپوں کی ضرورت پڑے گی ۔
اس سے بہتر ہے کہ صوبائی دارالحکومت کو گوادر پورٹ کے قریب منتقل کیاجائے تاکہ صوبے کا انتظامی دارالحکومت اور معاشی ‘ مالی اور تجارتی دارالحکومت ایک دوسرے کے قریب رہیں اور کوئٹہ کوہل اسٹیشن کا درجہ دیاجائے اور شہر میں کروڑوں کی تعداد میں درخت لگائے جائیں تاکہ ماحول سے آلودگی کو کم سے کم کیا جاسکے۔
نا اہلی کی انتہا یہ ہے کہ حکومتی سطح پر منصوبوں کا اعلان کیاجاتا ہے ان کے لیے رقم بھی مختص کی جاتی ہے لیکن ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے منصوبے اپنی مدت میں پورے نہیں ہوپاتے اور یہی رقم پھر لیپس ہوجاتی ہے ۔
مانگی ڈیم سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ بنایاگیا ہے جو ہرنائی اور زیارت سے بارش کا پانی جمع کرتا ہے مگر اس منصوبہ کو مکمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا، کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرچکی ہے اب آنے والی حکومت اور نمائندوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پانی کے مسئلے کو ترجیح دیتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اس پر کام کا آغاز کریں تاکہ وادی کوئٹہ ریگستان نہ بن جائے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور نہ ہوں۔
کوئٹہ میں پانی کی قلت
وقتِ اشاعت : May 28 – 2018