|

وقتِ اشاعت :   May 30 – 2018

پاکستان کے نامزد نگران وزیر اعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک پاکستان کی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ کے 22 ویں چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔وہ موجودہ حکمران جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد چیف جسٹس بنے تھے اور ایک برس سے زیادہ عرصے تک اس عہدے پر فائز رہے ۔جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے ہے جہاں وہ 17 اگست 1950 کوپیدا ہوئے۔

1993 میں انہیں صوبہ خیبر پختونخوا کا ایڈووکیٹ جنرل تعینات کیا گیا اور 1994 میں پشاور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک ایک دھیمے مزاج اور سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک بھی اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز میں شامل تھے ۔

جنہوں نے 1999 میں سابق صدر پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھایا تھا۔جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کو 2004 میں پشاور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا جبکہ ایک سال کے بعد انہیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کر دیا گیا۔جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک سپریم کورٹ کے ان ججوں میں شامل ہیں جنہیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد گھروں میں نظر بند کر دیا تھا ۔

تاہم انہوں نے 2008 میں ملک میں عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے دوبارہ اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔ناصر الملک اس چودہ رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججز کو اپنے گھر جانا پڑا جنہوں نے پرویز مشرف کے دوسرے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف لیا تھا۔

نگران وزیر اعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کے مستعفی ہونے کے بعد قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی رہے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک نے اس سات رکنی بیچ کی بھی سربراہی کی تھی ۔

جس نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو 26 اپریل 2012 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔اس فیصلے کے بعد یوسف رضا گیلانی کو اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا تھا۔

جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک نے اس عدالتی کمیشن کی بھی سربراہی کی تھی جس نے حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی سے متعلق تحقیقات کی تھیں۔

پاکستان تحریک انصاف کو بڑی امید تھی کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عدالتی کمیشن نے ان انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کچھ بے ضابطگیوں کی نشاندہی ضرور کی تھی لیکن مجموعی طور پر ان انتخابات کو شفاف اور قانون کے مطابق قرار دیا تھا۔

جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کی بطور نگران وزیراعظم نامزدگی کو سیاسی حلقوں کی جانب سے بہترین فیصلہ قرار دیاجارہا ہے کیونکہ جسٹس (ر)ناصرالملک کی شہرت ایک دیانتدار اور ایماندار شخصیت کے طور پر ہے جنہوں نے پرویز مشرف کے دورمیں وکلاء تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا۔

انہوں نے اپنے دور میں اہم اور تاریخی فیصلے بھی کئے۔ سیاستدانوں کو خوشی اس بات کی ہے کہ جسٹس (ر)ناصر الملک کے نگران وزیراعظم بننے کے بعد انتخابات سے متعلق جو افواہیں بازگشت کررہی تھیں اب وہ دم توڑ چکی ہیں اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ ملک بھر میں انتخابات مقررہ تاریخ کو شفاف طریقے سے ہونگے کیونکہ 2013ء کے عام انتخابات پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے تھے اور بے ضابطگیوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی ۔

مگر اس بار کوشش کی جائے کہ ان تمام کمزور پہلوؤں کو دور کیا جائے جن کی وجہ سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور اس حوالے سے شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ 2018ء کے انتخابات پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید نہ کی جاسکے۔