|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2018

سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا ،خاص کر ان کی بڑی تعداد نے بلوچستان میں ڈھیرے ڈالے ۔جنگ کے خاتمے کے بعد مہاجرین کی واپسی کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا اسی طرح نائن الیون کے بعد ایک بار پھر افغانستان کے حالات انتہائی مخدوش ہوئے تو ایک بارپھر مہاجرین نے بلوچستان کارخ کیا ۔

اوراب صورتحال یہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں جن کی موجودگی کے باعث 2013ء کے انتخابات کے نتائج پر سوالات اٹھائے گئے تھے کہ کس طرح ایک جماعت نے دیگر حلقوں سے کامیابی حاصل کی جہاں ان کا ووٹ بینک تک نہیں تھا۔ سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے باوجود بھی اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ۔ 

بعد ازاں بلوچستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے مردم شماری کے دوران گرینڈ جرگہ کا انعقاد کیا جس میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، سردار اختر جان مینگل ، سردار کمال خان بنگلزئی ،کبیر محمد شہی سمیت دیگر سیاسی و قبائلی شخصیات نے شرکت کی ۔ 

جرگہ میں مردم شماری کے حوالے سے شدید تحفظات کااظہار کیا گیا،جہاں شرکاء کاکہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری بلوچستان میں آباد تمام اقوام کے حقوق پر شب خون مارنے کے مترادف ہو گا جسے بلوچستان کے عوام کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔

افغان مہاجرین کی موجودگی میں اہل بلوچستان پہلے ہی معاشی طور پر بدحالی کاشکار ہیں ،وہیں صوبے اور ملک میں ان کی موجودگی امن و امان کامسئلہ پیدا کر رہی ہے لہٰذا اب وقت آچکا ہے کہ ان مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کیاجائے ناکہ ان کی موجودگی میں مردم شماری کروا کر ان کی موجودگی کو یہاں مستقل بنا دیا جائے ۔

بلوچستان ہمیشہ ایک لاوارث صوبہ رہا ہے وفاق کی جانب سے کبھی بھی بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی یہاں کے رائے عامہ کو اہمیت دی گئی۔ آج بھی صورتحال ویسی ہی ہے ، اب بھی خدشات اورتحفظات اپنی جگہ موجود ہیں کہ جس طرح مہاجرین نے قومی دستاویزات غیرقانونی طریقے سے بنائیں اورپاکستانی بن گئے، یہاں کی معیشت پرقابض ہوئے اورتوا ور یہاں کی مقامی سیاست میں بھی در آئے،اور ایک لسانی جماعت کوسپورٹ بھی کرتے رہے ۔ 

افسوسناک بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا جس طرح ہمارے یہاں ہوتاآرہا ہے آفیسران چند روپوں کی خاطر غیر قانونی تارکین وطن کو شناختی کارڈ بناکر دیتے رہے ،انہی کرپٹ آفیسران کی وجہ سے ہمارے ادارے کرپشن کا گڑھ بن کر رہ گئے ہیں ۔

بلوچستان کی اس تباہی میں کرپٹ آفیسران بھی برابرکے شریک ہیں۔ 2013ء کے بعد بننے والی حکومت کے وزیرداخلہ نے احسن اقدام اٹھاتے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا عمل شروع کیا تھااگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو یقیناًآج یہ خدشات جنم نہ لیتے۔ 

اب یہ موجودہ نگران حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے مہاجرین کی ووٹنگ کو روکنے اور ان کے دستاویزات کی جانچ پڑتال کیلئے مؤثر انداز میں منصوبہ بندی کرے تاکہ بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کی حق تلفی نہ ہو۔اور یہاں کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کو ایوان تک پہنچائیں جس سے بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں مدد مل سکے۔ 

مہاجرین پر اس دوران کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ عام انتخابات پر اثرانداز نہ ہوں کیونکہ مہاجرین کی موجودگی کے باعث بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں اب بھی تحفظات پائے جاتے ہیں جنہیں دورکرنا ضروری ہے۔