دفترخارجہ نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس نے رواں برس فروری میں پیرس میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت نہ روکنے پر گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ فنانشل ٹاسک فورس کے اعتراضات دور کرنے کے لیے قابل عمل تدابیر پر ایف اے ٹی ایف حکام سے مذاکرات ہوئے ہیں جن میں ایسے نظام جاتی نقائص کو دور کرنے پر غور کیا گیا ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو جاری رکھنے میں مدد دے رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ اجلاس میں سابق حکومت نے ایک ایکشن پلان پیش کر کے ٹاسک فورس سے مہلت طلب کی تھی۔
اس ایکشن پلان میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ منصوبہ ٹاسک فورس حکام کو مطمئن نہیں کر سکا جس کے بعد تازہ پلان پاکستان کو فراہم کیا گیا ہے۔منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے مابین بہتر رابطوں کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی کی جا سکے۔
پاکستانی حکومت دہشت گردی کے معاملات عدالتوں میں لے کر جاتی ہے لیکن دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی لہذا ایسے مقدمات کو بھی عدالتوں میں لے جایا جائے۔ پاکستان کو چاہیے کہ سرحدوں پر غیر قانونی طور پر کرنسی کی اسمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ مزید برآں یہ کہ ایسی تنظیمیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت کالعدم قرار دی گئی ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو ان اقدامات پر عملدرآمد کے لیے ستمبر 2019ء تک کی مہلت دی ہے۔ اگر اس دوران پاکستان نے ان اقدامات پر عمل نہ کیا تو اسے بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کوا سمگلنگ‘ منشیات اور فلاحی تنظیموں پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔
خاص کر دولت اسلامیہ،القاعدہ،جماعت الدعوہ،منشیات اور فلاحی تنظیموں پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ حقانی نیٹ ورک اور طالبان سے وابستہ افراد اور گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں پاکستان پر کئی طرح کی معاشی اور مالیاتی لین دین کی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اہم نوعیت کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے پہلے سے ہی پاکستان پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالاجارہا ہے جس کا فائدہ دشمن ممالک اٹھارہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ حکومت نے پہلے سے طے کرلیا تھا کہ پاکستان کانام گرے لسٹ میں شامل کیاجائے گا۔
بہرحال جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوالہذا اب بلیک لسٹ ہونے کی نوبت نہیں آنی چائیے ، پاکستان کو اس مشکل سے نکلنے کیلئے فوری حکمت عملی تیار کرنی چاہئے ،گوکہ پاکستان نے گزشتہ چار سالوں کے دوران کالعدم تنظیموں سمیت فلاحی اداروں پر کڑی نظر رکھی تھی اور بعض پر پابندی بھی عائد کی تھی جب نیشنل ایکشن پلان مرتب کیاگیاتھا اس دوران پاکستان نے پوری توجہ اس جانب مرکوز کررکھی تھی ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے بعض ممالک اب بھی پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور وہ اس عمل سے خوش بھی نہیں ہیں کیونکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں واضح ہیں مگر اب مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن ممالک پاکستان کے خلاف مزید محاذ نہ کھول سکیں ۔ پاکستان کانام گرے لسٹ میں ڈال تو دیا گیا ہے مگرپاکستان کے حالات حقیقتاً اس قدر خراب بھی نہیں اور یہی ہم نے دنیا کو دکھانا ہے۔
پاکستان کا نام گرے لسٹ میں، سنجیدگی کی ضرورت
وقتِ اشاعت : July 1 – 2018