امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب پر زور دیا ہے کہ وہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پانے کی خاطر تیل کی پیداوار میں اضافہ کریں۔
اپنی ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ‘میں نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان سے درخواست کی ہے کہ وہ تیل کی پیداوار 20 لاکھ بیرل یومیہ کر دیں اور انھوں نے پامی بھر لی!’
صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا ہے کیونکہ ایران اور وینیزویلا میں شورش اور فساد جاری ہے۔’
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس کی وجہ وہ ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کا امریکی منصوبہ ہے۔
تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے بڑھتی ہوئی قیمتوں کے تناظر میں پیداوار بڑھانے کے لیے ہامی بھری تھی لیکن اس کے باوجود قیمتوں میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
سعودی خبر رساں ادارے کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ امریکی صدر اور سعودی بادشاہ کے مابین گفتگو ہوئی ہے لیکن اس کے بارے میں زیادہ تفیصلات بیان نہیں کی گئیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ سعودی حکمران نے تیل کی پیداوار بڑھانے کی منظوری دی ہے یا نہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب دنیا بھر میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ملک ہے اور اس سال مئی میں تقریباً ایک کروڑ بیرل تیل ان کی روزانہ کی پیداوار تھی۔
لیکن امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق سعودی عرب شاید امریکی صدر کی درخواست ماننے کے لیے راضی نہ ہوں۔
ایک سعودی عہدے دار نے اخبار کو بتایا کہ ‘سعودی عرب ایک کروڑ بیرل تیل یومیہ سے زیادہ پیداوار کرنا نہیں پسند کرتا اور اس کے ایسے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ پیداوار بڑھانا کافی مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔’
اس سے قبل ماضی میں صدر ٹرمپ اوپیک کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اپریل میں انھوں نے ٹویٹ کی تھی کہ ‘تیل کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھائی ہوئی ہیں اور یہ اچھی بات نہیں ہے اور اسے منظور نہیں کیا جائے گا۔’
ادھر اوپیک کے ایک اور اہم رکن ایران نے صدر ٹرمپ پر الزام لگایا ہے کہ وہ تنظیم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ سعودی عرب کے بارے میں بھی کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کی بولی بول رہے ہیں۔
ہفتے کو ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ ایرانی عوام اور ملک کی حکومت کے درمیان ‘معاشی دباؤ’ کی آڑ میں دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔’
مئی میں امریکی حکومت کا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایرانی ریال کی قیمت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور چند روز قبل تہران کے مرکزی بازار میں تاجروں نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ریال کی گرتی ہوئی قیمت کے خلاف احتجاج کیا تھا جو 2012 کے بعد شہر کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔