نگران وزیراعلیٰ بلوچستان نے صحت اور تعلیم کے شعبوں کی ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صحت اور تعلیم کے شعبے بری طرح مسائل کا شکار ہیں اور ان کی بحالی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ریاست تمام دستیاب وسائل بروئے کار لاکر عوام کو صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تمام ضروری سہولتیں مہیا کرنا چاہتی ہے۔ یہ مستقل پالیسی ہے اور حکومتوں کی تبدیلی سے اس پالیسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
نگران وز یر اعلیٰ کاکہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارو مدار تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترقی پر منحصرہے ۔ صحت مند او ر تعلیم یافتہ نئی نسل ہی مستقبل کی بھاگ دوڑسنبھال سکتی ہے، صحت اور تعلیم کے دونوں شعبوں میں وافر بجٹ بھی موجود ہے اور عملہ کی بھی کوئی کمی نہیں۔ حکومتی وسائل کے درست اوربہتر استعمال ،مناسب منصوبہ بندی اور پر خلوص کوششوں سے دونوں شعبوں میں مثبت نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
حکومت کی جتنی بھی مدت ہے، وسائل کے درست استعمال اور خاص طور سے تعلیم اورصحت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے کوئی دقیقہ فر وگزاشت نہیں کرے گی۔ ان کاکہناتھا کہ تعلیم اور صحت کے معاملے میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا ۔
انہوں نے افسران او ر اہلکاروں کو تنبیہہ کی کہ حکومت تمام ضروری وسائل فراہم کررہی ہے اس لیے کسی غفلت اور کوتاہی کو قطعی برداشت نہیں کرے گی ۔ دونوں انتہائی حساس اور اہم شعبوں میں موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنا ہوگا اس کیلئے جو بھی ممکن ہوا،کیاجائے گا۔
بلوچستان میں گزشتہ چار سالہ دور حکومت کے دوران بجٹ میں تعلیم اور صحت کو اس لئے اہمیت دی گئی کہ بلوچستان ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت ان شعبوں میں بہت پیچھے ہے اور انتہائی ابتر صورتحال سے گزر رہی ہے اسی کو بنیاد بناکر بجٹ میں خطیر رقم مختص کی گئی مگر نتیجہ آج بھی صفر ہے۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں نہ تو بہتر تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور نہ ہی صحت کی سہولیات سے عوام استفادہ کررہے ہیں۔
بلوچستان میں صحت کے شعبہ کا بڑا المیہ یہ ہے کہ آج بھی خواتین کی بڑی تعداد زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ۔دور دراز علاقوں کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور عملہ ڈیوٹی نہیں دیتے جبکہ ہسپتال خستہ حالت میں ہیں ۔
یہی حال تعلیمی اداروں کا ہے جہاں بڑی تعداد میں ٹیچرز تو بھرتی کئے گئے مگر کوئی حاضر نہیں ہوتا ،بیشتر گھوسٹ ٹیچرز موجود ہیں جن کے خلاف ابتدائی طور پر کارروائی عمل میں لائی گئی مگر اساتذہ تنظیمیں سراپااحتجاج بن گئیں جس کی وجہ سے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔محکمہ صحت کے اندر بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ نگران حکومت اپنی مدت کے دوران کچھ بہتری لانے کیلئے اس جانب بھرپور توجہ دے تو نتائج مثبت برآمد ہوسکتے ہیں۔
عام انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کیلئے یہ سب سے بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ کس طرح دونوں شعبوں میں بہتری لائیگی۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں خوشحال بلوچستان کا چرچا تو بہت ہورہا ہے عملاََ زمینی حقائق کو بدلنا ضروری ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔
یہ تو صرف دو شعبے ہیں بلوچستان میں اگر باریک بینی سے تمام شعبوں کا جائزہ لیاجائے تو ہر شعبہ میں کرپشن، اقرباء پروری سمیت دیگر مسائل کا انبار ہے۔ امید ہے کہ منتخب نمائندے بلوچستان کی تبدیلی کیلئے عملی اقدامات اٹھائینگے اور مسائل میں گرے اہل بلوچستان کو سانس لینے کا موقع فراہم کرینگے۔
بلوچستان : سرکاری شعبوں کی ز بوں حالی
وقتِ اشاعت : July 3 – 2018