گزشتہ روز پاک چین اکنامک فورم کے دوران چینی حکام نے گوادر میں بجلی کی پیداوار کیلئے کول پاور پلانٹ لگانے کی تجویز دی تاکہ گوادر جو مستقبل میں معاشی حب بننے جارہا ہے جو سی پیک کا مرکز ہے، وہاں بجلی بحران ختم کیاجاسکے۔
چینی حکام کی گوادر میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کی نیک خواہشات اپنی جگہ مگر کول پاور پلانٹ ہی کیوں؟ کیا بجلی حاصل کرنے کے دوسرے تمام ذرائع قابل عمل نہیں رہے جبکہ ایران کی جانب سے بجلی فراہمی کی پیش کش اب بھی اپنی جگہ موجود ہے ۔ کول پاور پلانٹ کے منصوبے دنیا ترک کررہی ہے کیونکہ ان کے نقصانات بہت زیادہ ہیں بہ نسبت اس بجلی کے جو ان سے حاصل ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کول پاور پلانٹ کے جو زہرآلود ماحولیاتی اثرات پڑینگے اس سے کیسے بچاجاسکتا ہے۔ اس سے قبل لسبیلہ میں کول پاور پلانٹ منصوبہ شروع کیا گیا تو بلوچستان کے عوام اور سیاسی حلقوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور وجوہات بھی یہی بیان کی گئیں کہ اس سے بلوچستان کو نقصان پہنچے گا جبکہ بجلی پنجاب کو فراہم کی جائے گی اور اس طرح یہ منصوبہ متنازعہ بن گیا۔
اس لئے ضروری ہے کہ متنازعہ منصوبوں پر غور کرنے کی بجائے جو وسائل اور پیشکش موجود ہوں ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ 2015ء میں ایران نے حکومت پاکستان کو پیشکش کی کہ وہ مزید تین ہزار میگاواٹ بجلی پاکستان کو فروخت کرنے کو تیار ہے اس سے قبل ایران بلوچستان کے بعض علاقوں کو بجلی 8روپے فی یونٹ فروخت کررہا ہے اور اب اس نے پیشکش کی ہے کہ وہ 6 روپے فی یونٹ تین ہزار میگاواٹ بجلی فروخت کرنے کوتیار ہے۔
یہ بجلی ’’جکی گور‘‘ سے ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے مکران کو فراہم کی جاسکتی ہے۔ اس لائن پر بلوچستان کا قریب ترین شہر مند ہے جو ایرانی بلوچستان کے سرحد پر واقع ہے اسی ٹرانسمیشن لائن سے تقریباً 70میگاواٹ بجلی پورے مکران کو فراہم کی جارہی ہے۔ اسی لائن سے مزید تین ہزار میگاواٹ حاصل کرکے کراچی اور اس کے گرد و نواح کو بجلی کی فراہمی نہ صرف یقینی بنائی جاسکتی ہے بلکہ سندھ سے مکمل طور پر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ بجلی ہر لحاظ سے سستی ہے اس بجلی کے مقابلے میں جو پاکستان خود پیدا کرتا ہے یہاں فرنس آئل سے بننے والی بجلی ہمیں 12روپے فی یونٹ پڑتی ہے جبکہ ایران اس کو آدھی قیمت پر فروخت کرنے کو تیار ہے۔اس نئی ٹرانسمیشن لائن سے لسبیلہ ،اس کا انڈسٹریل ایریا، مکران کے باقی ماندہ علاقے بلکہ خاران سے منسلک علاقوں، کراچی اور بقیہ سندھ کی ضروریات پوری کی جاسکتیں ہیں۔
ایران میں بجلی کی پیداوار ایک لاکھ چوبیس ہزار میگاواٹ ہے۔ ایران پڑوس کے آٹھ ملکوں کو مناسب قیمت پر بجلی فراہم کررہا ہے ۔ ایران سے بجلی کی درآمد دو راستوں سے ہوسکتی ہے۔ 1000میگاواٹ زاہدان۔ کوئٹہ ٹرانسمیشن لائن سے اور تین ہزار میگاواٹ ’’جکی گور‘‘ سے مند کے راستے کراچی کو،جس سے پاکستان توانائی کے بحران سے نکل آئے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگرکول پاور پلانٹ کی بجائے ایران سے بجلی کا معاہدہ کیاجائے تواس کے بے شمار فوائد سامنے آئینگے اور ا سے ایک اہم انقلابی قدم قرار دیاجائے گا بجائے اس کے کہ غیر اہم منصوبوں پر اپنا پیسہ اور توانائی خرچ کی جائے ۔
اس نہ صرف پاک ایران تعلقات مزید مستحکم ہونگے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان دیگر تجارتی معاہدوں کے رستے بھی کھلیں گے۔ لہٰذا سستی بجلی کی پیشکش کی موجودگی میں کول پاور پلانٹ جیسے ضرر رساں منصوبوں کے بارے میں سوچنے کی کوئی منطق نہیں بنتی کیونکہ کول پاور پلانٹ جیسے منصوبوں کو وہ ممالک ختم کررہے ہیں ۔
جہاں یہ چل رہے تھے اس لیے کہ ان کے فوائد سے نقصانات بہت زیادہ ہیں،ماحول پر ان کے آلودگی کے اثرات انتہائی تباہ کن ہیں ، دوسرے معنوں میں ان کی قیمت انسانی زندگی ہے اور دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ انسانی زندگیوں کی قیمت پر کسی مادی فائدے کی حامل شے کو ترجیح نہیں دیتا، ہماری حکومت کو بھی اس معاملے میں ایسے ہی اعلیٰ اخلاقی کردارکا مظاہرہ کرنا چائیے۔
کول پاور پلانٹ ہی کیوں؟
وقتِ اشاعت : July 6 – 2018