|

وقتِ اشاعت :   July 9 – 2018

جب سے نیب نے سیاسی جماعتوں کے قائدین سمیت اہم بیورو کریٹس پر ہاتھ ڈالا ہے اور ان کو سزائیں بھی سنارہی ہے تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے اس بات پر زور دینا بھی شروع کردیا ہے کہ احتساب بلاتفریق سب کا ہونا چاہئے، تمام اداروں کے اندر موجود کرپٹ عناصرکو قانون کی گرفت میں لانا چاہئے۔ 

یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں بلکہ سب کا ہونا چاہئے جنہوں نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ملک کو داؤ پر لگایا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک جس طرح کے بحرانات سے گزررہی ہے اس کے سب سے بڑے ذمہ دار اس ملک پر حکومت کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ڈکٹیٹرز ہیں ۔

جب یہ گلہ شکوہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سامنے آتا ہے کہ ملک میں جمہوری نظام کو چلنے نہیں دیا گیا عوام کے مینڈیٹ کو کچلا گیا مگر اس کے پیچھے بھی تو سیاسی جماعتیں ہی تھیں۔ ایوب خان سے لیکر پرویز مشرف تک عوامی اقتدار کا تختہ جب بھی الٹ دیاگیا تو یہی سیاسی جماعتیں تھیں جنہوں نے مزاحمت کی بجائے مٹھائیاں تقسیم کیں اور شادیانے بجائے ۔

افسوس کہ سیاسی جماعتیں کبھی بھی جمہوریت کی بقاء وسلامتی سمیت عوامی مفادات کے لیے ایک پیج پر نظر نہیں آئے۔ اگر یادداشت کمزور نہ ہو سیاسی جماعتوں کے قائدین کی تو 2008ء کے دوران جب عام انتخابات کے بائیکاٹ پر ملک کی تمام بڑی اور چھوٹی سیاسی ومذہبی جماعتیں متفق دکھائی دے رہی تھیں مگر پیپلزپارٹی اس فیصلے کو سیاسی نقصان سمجھ رہی تھی جبکہ مسلم لیگ ن نے آل پارٹیز کا نفرنس کا انعقاد لندن میں کیا جہاں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا ۔

مگر پیپلزپارٹی نے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی یہی مشورہ دیا لیکن مسلم لیگ ن نے اپنا بائیکاٹ کا فیصلہ ہی برقرار رکھامگر بعد میں مسلم لیگ ن نے اپنی ہی صدارت میں ہونے والے اس اعلامیہ کی دھجیاں بکھیر تے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا ، اس طرح دیگر سیاسی جماعتیں میدان سے باہر تو رہیں مگر اپنے آزاد امیدوار میدان میں اتارے۔ 

آج نواز شریف جس تنہائی کا شکار ہیں اس کی وجہ ماضی کے وہ عمل ہیں جو انہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے تحت کئے۔ احتسابی عمل کو اگر غیر سیاسی اور بلاتفریق سب کی طرف لے جانا ہے تو سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جمہوری نظام کو مضبوط کرنا ہوگا اور مؤثر قانونی سازی کرنی ہوگی اور اس عزم کا اظہار کرنا ہوگا کہ کسی بھی طرح کے دباؤ اور مفادات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے ہر قسم کی قربانی دینی ہوگی اور عوام کے حقوق کا بھرپور تحفظ کرنا ہوگا۔

جو کہ مشکل نظر آتا ہے اگر سیاسی صورتحال اسی طرح رہی تو احتسابی عمل شفاف نہیں ہوگا ۔ ملک کے عوام تو یہی چاہتے ہیں کہ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا بھرپور احتساب ہونا چاہئے اور تمام اداروں کو مکمل جوابدہ بنانا چائیے اس عزم کے ساتھ کہ کوئی بھی قانون سے قطعی بالاترنہیں۔