جدہ: سعودی عرب میں ہونے والی علما کانفرنس نے افغانستان میں جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حکومت اور طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سعودی شہزادہ خالد الفیصل کی زیر سربراہی جدہ میں علما کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر سے 200 سے زائد مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی جن میں پاکستان کے 12 علما بھی شامل تھے۔ کانفرنس کے اختتام پر ’مکہ اعلامیہ‘ جاری کیا گیا جس میں افغانستان میں فریقین سے جنگ بندی کرکے امن مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اختتامی خطاب میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے سربراہ يوسف بن احمد العثيمين نے کہا کہ مکہ اعلامیہ مسئلہ افغانستان کا پر امن شرعی حل پیش کرتا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ افغانستان میں موجود فریقین جنگ بندی کرکے تشدد، اختلافات اور بغاوت کے خاتمے کے لیے اسلامی اقدار پر مبنی براہ راست امن مذاکرات شروع کریں۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے کہا کہ مکہ کانفرنس سے افغانستان میں سلامتی اور استحکام کا نیا باب کھلے گا۔
دوسری جانب افغان طالبان نے کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہی اسے مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے بارے میں بھی انتہائی سخت بیان جاری کیا۔ طالبان کے بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کی جنگ کوئی مقامی اندرونی تنازع نہیں بلکہ ایک اسلامی ملک پر کفار کی جارحیت ہے جس کے خلاف طالبان کی مزاحمت جہاد فرض ہے، کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس جہاد کو فساد قرار دے اور نہ ہی وہ ایسا کرنے دیں گے۔
طالبان نے کہا کہ سعودی عرب کی حکومت اور علما سے یہ امید نہیں کہ وہ کفر اور اسلام کی جنگ میں امریکی حملہ آور کا ساتھ دیں گے، بلکہ وہ توقع کرتے ہیں اسلامی کانفرنس پہلے کی طرح ان کی جائز جدوجہد کی حمایت کرے گی۔ طالبان کے اسی سخت ردعمل کی وجہ سے مکہ اعلامیے میں افغان طالبان کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں جاری کیا گیا اور صرف اعلامیے پر ہی اکتفا کرلیا گیا۔ ورنہ اس کانفرنس کے دعوت نامے میں افغانستان میں جاری طالبان کی جدوجہد کو دہشت گردی اور طالبان کو غیرقانونی مسلح گروہ اور جرائم پیشہ افراد کہہ کر پکارا گیا تھا۔