بلوچستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس سرزمین نے ترقی پسند قدآور شخصیات کو جنم دیا، نواب یوسف عزیز مگسی سے لیکر میرغوث بخش بزنجو تک ایسے لیڈر پیدا ہوئے جنہوں نے ہمیشہ ترقی پسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بلوچ لیگ کی بنیاد ڈالی گئی جس کی قیادت نواب یوسف عزیز مگسی نے کی اور انگریز سامراج کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ۔
اسی طرح 70ء کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی معرض وجود میں آئی۔ ون یونٹ کے خاتمے اورغیر جمہوری قوتوں کے خلاف اس سرزمین کے سپوتوں نے ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ ہم بلوچستان کی اس نفسیات کی بات کررہے ہیں جو ہمیشہ اس کی روایات، کلچر کی خوبصورتی کو ملک کے دیگر حصوں سے منفرد کرتا ہے۔
بلوچستان میں ایک وقت تھا کہ لسانیت، فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کبھی دیکھنے کو بھی نہیں ملتی تھی بلکہ یہاں ہر نسل، زبان، فرقہ ومذہب کے لوگ آپس میں شیر وشکر ہوکر رہتے تھے مگر گزشتہ چند عرصوں کے دوران بلوچستان میں شدت پسندی کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے اور ملک کے دیگر حصوں میں یہ تاثر عام ہوگیا کہ بلوچستان دہشت گردی کا گڑھ ہے اور یہاں کے لوگ انتہاء پسند ہیں جبکہ زمینی حقائق بالکل اس کی نفی کرتے ہیں۔
سویت یونین کی افغانستان پر حملے کے بعد مہاجرین کی بڑی تعداد نے بلوچستان کا رخ کیا او راس طرح یہاں کے معاشرتی وسماجی حالات پر مہاجرین اثرانداز ہوئے۔ اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ کلاشنکوف کلچر، ہیروئین ، ڈکیتی ، اغواء برائے تاوان اور دہشت گرد ی انہی مہاجرین کی دین ہے ۔
بلوچستان کے سیاسی لیڈروں کا اول روز سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن جو بلوچستان کے سماجی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کررہے ہیں، ان کی جلد واپسی کو یقینی بنایاجائے مگر ان کی آواز کو کب سنا گیا ہے جو اب سنا جائے گا،اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات زور پکڑ رہے ہیں ،سینکڑوں جانیں ضائع ہورہی ہیں ۔
گزشتہ روز کا سانحہ اپنی نوعیت کا بد ترین سانحہ ہے جس نے اس ذہنیت کو آشکار کردیا ہے کہ یہاں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں باوجود اس کے کہ ہم اس مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قراردیا گیا ہے۔
ضلع مستونگ کے علاقے درینگڑ ھ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی بڑے بڑے سانحات یہاں پیش آئے ہیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں ہیں۔ درینگڑھ اور کانک کے متعلق اب یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ یہاں شدت پسندوں کا بسیرا ہے حالانکہ ضلع مستونگ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو چند گھروں پر مشتمل ہے اور نہ ہی یہ دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے جہاں دہشت گرد آسانی سے پناہ لے سکیں۔
یہ امر قابل غور ہے کہ مستونگ جو ترقی پسند سوچ رکھنے والے باشندوں پرمشتمل علاقہ ہے یہاں شدت پسند کس طرح سے اپنی کارروائیاں کرتے آرہے ہیں۔یقینااس کے پیچھے وہ قوتیں ملوث ہیں جو ہمیشہ بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے روایات کو پامال کرتے ہوئے شدت پسندی کو پھیلانا چاہتے ہیں یقیناًاس کے پیچھے غیرملکی مداخلت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔
بلوچستان کی نرم سرحدوں کو پار کرنا کوئی مشکل نہیں اور یہ دہشت گرد اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرحد آسانی سے پار کرکے بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں اور تخریب کاری کرتے ہیں جبکہ ان کے سہولت کارپہلے سے ہی ارد گرد کے علاقوں میں موجود ہیں۔
مستونگ کوئٹہ شہر سے صرف40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور شدت پسند چمن سے کوئٹہ پھر مستونگ کے علاقے میں داخل ہوجاتے ہیں اور دہشت گردی کے ذریعے اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرتے ہیں۔
بلوچستان کی تاریخ اور اس کے سیاسی کلچر کو تباہ کرنے والوں کے خلاف اب فوری کارروائی کی جائے ۔ توقع ہے کہ قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے مہاجرین کی واپسی عمل میں لائی جائے گی ساتھ ہی دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیاجائے گا تاکہ بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقے محفوظ ہوسکیں۔
ترقی پسند بلوچستان شدت پسندی کی لپیٹ میں
وقتِ اشاعت : July 15 – 2018