|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2018

سانحہ مستونگ کے بعد اگرچہ انتخابات میں عوامی سطح پر وہ گہما گہمی نظر نہیں آرہی لیکن سیاسی جماعتیں اس جمود کو توڑنے میں لگی ہوئی ہیں ۔انتخابی ماحول کچھ یوں بن رہا ہے کہ ایک جانب سیاسی جماعتوں کے حق میں آزاد امیدوار دستبردار ہورہے ہیں تو دوسری جانب سیاسی شخصیات کی شمولیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

بلوچستان کا سیاسی ڈھانچہ ملک کے دیگر حصوں سے بالکل مختلف ہے یہاں سیاسی جماعتوں پر ہمیشہ شخصیات حاوی رہی ہیں جس کی وجہ قبائلی معاشرہ ہے جہاں نواب، سردار، مشر کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور وہ اپنے حلقے سے بھاری تعداد میں ووٹ لیکر کامیاب ہوتے ہیں اور ان کو شکست دینا انتہائی مشکل ہے۔ بلوچستان اپنے روایات کی وجہ سے ایک الگ پہچان رکھتا ہے مگر سیاسی حوالے سے یہ صوبہ گزشتہ کچھ ادوار سے بہترین لیڈرشپ اور گڈ گورننس سے محروم ہے ۔

بلوچستان میں گزشتہ دوانتخابات کے دوران وہی چہرے اسمبلی میں نظرآئے جو اس بارحکومت بنانے کیلئے پھر سے پُرامیدہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں بلوچستان میں مسلم لیگ ن نے جب حکومت بنائی تو اس کی وجہ پارٹی منشور یا نظریاتی سیاست نہیں بلکہ وہ شخصیات تھے جنہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور بعد میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد انہوں نے قوم پرستوں کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت بنائی ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران تین وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے، مسلم لیگ ن نے بلوچستان میں مری معاہدہ کیا جس میں اڑھائی سال قوم پرست جماعت جبکہ اڑھائی سال مسلم لیگ ن کو وزارت اعلیٰ کا منصب دینے کا فیصلہ ہوا ۔

قوم پرست جماعت کو وزارت اعلیٰ دینے کا مقصد بلوچستان میں موجود شورش پر قابو پانے ، بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ اور علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرنا تھا مگر بعض حلقوں نے شدید مایوسی کا اظہار کیا کہ جو اہداف قوم پرست جماعت کو دیئے گئے تھے انہیں وہ پورا نہیں کرسکا۔ بہرحال اب اس کا فیصلہ عام انتخابات میں عوام اپنے رائے سے کرے گی۔

قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے معاہدے کے تحت اپنے اڑھائی سال پورے کئے مگر مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف آخری پانچ ماہ کے دوران عدم اعتماد کی تحریک انہی کے جماعت اور اتحادی ارکان نے پیش کیا ۔

اس عمل میں اپوزیشن نے بھی بھرپور حصہ لیااس طرح مسلم لیگ ن کی حکومت بلوچستان سے نہ صرف ختم ہوئی بلکہ اس کی جماعت کو بھی خدا حافظ کہہ دیا گیا جس کے بعد آج مسلم لیگ ن بلوچستان میں کوئی خاص پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی بلکہ اس کی جگہ ن اور ق لیگ کی سیاسی شخصیات نے مل کر اپنی ایک نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی بنائی جس میں وہی چہرے شامل ہیں جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں جبکہ اس کے مد مقابل اس وقت قوم پرست جماعتوں میں سب سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل دکھائی دے رہی ہے۔ 

کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں بی این پی مینگل نے اپنے مضبوط امیدوار کھڑے کئے ہیں اسی طرح پشتون علاقوں میں پشتونخواہ میپ اور ایم ایم اے کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ دو ادوار کے دوران صوبہ کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، آج بھی بلوچستان بنیادی سہولیات سے محروم ہے گوکہ سی پیک جیسا اہم منصوبے کا آغاز کیا گیا مگر اس کا فائدہ یہاں کے لوگوں کو نہیں ملا۔ 

اب ایک بار پھر سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں وہی پرانے وعدے دہرائے ہیں جن کے وفا ہونے کی عوام کو کوئی امید نہیں ہے کیونکہ عوام کی اکثریت آج بھی پانی، بجلی، سیوریج جیسے مسائل سے دوچار ہے بڑی ترقی تو کجا جس کا وہ خواب دیکھ سکیں ،ان کا ابھی تک مطالبہ اپنے بنیادی مسائل کے حل کا ہے ۔ 

تو کیا اب کی بار نئی بننے والی حکومت پرانے چہروں کے ساتھ تبدیلی لائے گی جس کی آس عوام لگائے بیٹھے ہیں؟ اگر اس بار تبدیلی نہیں آئی تو خدشہ ہے کہ انتخابی عمل سے عوام کا اعتماد ہی کُلّی طور پر نہ اٹھ جائے۔