|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2018

خضدار : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و حلقہ این اے 269 سے بی این پی و ایم ایم اے کے مشترکہ امیدوار سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بی این پی کو پارلیمانی سیاست سے دھکیلنے کی کوشش کرنے والے جان لیں کہ بی این پی پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر دونوں صورتوں میں اپنی تحریک سے دستبردار نہیں ہو گی۔

سی پیک دکھاوے کی ترقی ہے ہم دکھاوے کی ترقی نہیں بلکہ وہ ترقی چاہتے ہیں جو بلوچستان میں بسنے والے لوگوں کے لئے ہو،انتخابات میں شفافیت نظر نہیں آ رہی لوگ سوال اٹھا رہے ہیں،1970 کے انتخابات کے بعد ملک میں ہونے والے تمام انتخابات کنٹرولڈ تھے،1970 کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے والے اس کا نتیجہ بھی دیکھ چکے ہیں،اقتدار کی نہیں بلکہ اختیار کی جدو جہد کر رہے ہیں۔

حصہ داری نہیں ہماری حق ملکیت تسلیم کی جائے،صوبائی حکومت ایک پارٹی کو سپورٹ کر رہی ہے یہ کیئر ٹیکر حکومت نہیں بلکہ انڈر ٹیکر حکومت ہے جو بلوچستان میں ملازمتوں کو سیاسی رشوت کے طور پر بانٹ رہی ہے۔

ترقی کا عمل ملک کے تمام علاقوں سے ہو کربلوچستان پہنچتی ہے جبکہ ظلم و زیادتیوں کا ابتداء بلوچستان سے ہوتی ہے،انتخابات میں عوام نے ہمیں موقع دیا تو جمہوریت پسند پارٹیوں کو ساتھ لیکر آگے کا سوچیں گے ۔

ان خیالات کا ظہار انہوں نے مینگل کوٹ وڈھ میں خضدار کے صحافیوں کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے کیا اس موقع پر بی این پی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری لعل جان بلوچ،مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عزیز بلوچ،ضلعی صدر آغا سلطان ابراہیم احمد زئی،بی ایس او کے سابق چیئرمین واحد بلوچ،ندیم گرگناڑی سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔

سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ باپ کے باپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ انہیں اس مصنوعی باپ کی کیوں ضرورت پڑی میں سمجھتا ہوں کہ فیڈریشن کی پارٹیاں بلوچستان کے نام کو اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کرتے ضرور ہیں مگر ان کے ایجنڈے میں بلوچستان کو کوئی اہمیت حاصل نہیں اور بلوچستان کے لوگوں کا اعتماد بھی فیڈریشن کی پارٹیوں سے اٹھ رہا ہے اس لئے شاید باپ کے تخلیق کاروں کو باپ کی ضرورت پیش آئی۔

انتخابات کے شفافیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں نہ میڈیا آزاد ہے اور نہ ہی منصف آزاد ہے یہاں کی نسبت دوسرے صوبوں میں میڈیا اور منصفین دونوں آزاد ہیں وہاں فری اینڈ فییر الیکشن کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔

بلوچستان میں تو پاک شفاف الیکشن کا ہونا ایک خواب ہی ہو سکتا ہے انتخابات میں مداخلت ہو رہی ہے ملک میں 1970 ء کے انتخابات سو فیصد فیئر تھے مگر ان کی نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور پھر اس کا نقصان کا اندازہ بھی انتخابات میں مداخلت کرنے والوں کو لگانا چائیے بلوچستان نیشنل پارٹی کو پارلیمانی سیاست سے دھکیلنے کی کوششیں کی جا رہی ہے میں ایسی کوششیں کرنے والوں کو اتنا ضروری کہونگا کہ ہم پارلیمنٹ کے اندر ہوں یا باہر دونوں صورتوں میں بلوچستان کی آواز بنتے رہیں گے۔

ہم ایسی ترقی کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہیں گے جس کا نقصان بلوچستان کو اٹھانا پڑے اور فائدہ دوسرے صوبوں کو ہم ہر اس ترقی کی حمایت کرتے ہیں جو بلوچستان کے عوام کے لئے ہوں ایسی ترقیاتی منصوبوں کی افتتاح کے لئے وہ اسلام آباد سے ہیلی کاپٹر پر آجائیں ہم پیدل چل کر اس کا حصہ بنیں گے ۔

بی این پی نے کبھی اقتدار کی جدو جہد نہیں کی ہم چاہتے ہیں کہ تمام صوبو ں کو ان کا حق ملنا چائیے اور جس صوبے سے جو وسائل نکلتے ہیں وہاں اس صوبے کی حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے ۔

سردار اختر جان مینگل نے نگران صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ کیئر ٹیکر حکومت نہیں بلکہ انڈر ٹیکر حکومت ہے جو بلوچستان میں ایک خاص جماعت کو سپورٹ کر کے الیکشن کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے گورنمنٹ ملازمتیں سیاسی رشوت کے طور پر بانٹنا شروع کر دی ہے ۔

الیکشن کمیشن اگر آزادالیکشن کا نعرہ لگا رہی ہے تو ان ملازمتوں کی بندر بانٹ روکیں وزیر اعلیٰ بلوچستان سمیت نگران حکومت میں شامل وزراء کو عوام تو اپنی جگہ ان کیگھر کے افراد کی بھی حمایت حاصل نہیں ۔

انتخابات کے بعد نئی بننے والی حکومت میں حصہ داری کے حوالے سے بی این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بی این پی کے تمام فیصلے بالائی اداروں میں ہوتے ہیں اس حوالے سے ہماری کوشش ہو گی کہ نظریاتی قربت رکھنے والے جماعتوں اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے والے جماعتوں کے ساتھ آگے چل کر بلوچستان سے پسماندگی دور کرنے کی کوشش کریں ۔

تا ہم یہ باتیں قبل ازوقت ہے بی این پی کو کچھ اختیار دار حلقوں پر ناپسندیدگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر ہمیں اللہ کا شکر ہے کہ عوام میں ہمیں پسندیدگی میں اول نمبر پر رکھا گیا ہے اور ان شاء اللہ 25جولائی کو عوام بلوچستان نیشنل پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے حق میں فیصلے دے گی۔