کوئٹہ کا حلقہ این اے 265شہر کے وسطی علاقوں پر مشتمل ہے، یہ حلقہ صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پی بی 27،پی بی 28، پی بی 29 جبکہ این اے 265 میں مری آباد،علمدار روڈ،پشتون آباد، کینٹ، جان محمد روڈ، سیٹلائیٹ ٹاؤن، شہباز ٹاؤن، وحدت کالونی بروری روڈ، ڈبل روڈ، ریلوے کالونی سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
ماضی میں یہ حلقہ این اے 259 کہلاتا تھا، 2013میں اس حلقے سے پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی 38ہزار سے زائد ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے قاسم سوری نے 16ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ 2018 کے عام انتخابات میں پشتونخوامیپ،بی این پی مینگل،متحدہ مجلس عمل اور پی ٹی آئی کے درمیان مقابلہ ہے۔
پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی ایک بار پھر اسی حلقہ سے انتخاب لڑرہے ہیں جبکہ بی این پی مینگل نے بھی مضبوط امیدوار حاجی لشکری رئیسانی کو میدان میں اتارا ہے بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے کہاجارہا ہے کہ اس بار دونوں شخصیات کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا جبکہ ماضی میں دوسری پوزیشن لینے والی جماعت پی ٹی آئی نے بھی اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کیلئے مہم میں تیزی لائی ہے ۔
ایم ایم اے کے حافظ حمداللہ بھی میدان میں ہیں دوسری جانب مسلم لیگ ن کی راحیلہ درانی، بلوچستان عوامی پارٹی کے نصیب اللہ اچکزئی اورمجلس وحدت المسلمین کے سید آغا رضا کی پوزیشن اتنی بہتر دکھائی نہیں دے رہی ۔
این اے 266کوئٹہ جو سر پل، سبزل روڈ، گولی مارچوک، عیسیٰ نگری، کلی جیو، قمبرانی، سریاب روڈ، غوث آباد، فیروز آباد، تختانی بائی پاس، بھوسہ منڈی، انڈسٹریل ایریا، موسیٰ کالونی، کیچی بیگ، گاہی خان چوک، اختر آباد، ہنہ اوڑک پرمشتمل ہے جس میں20 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
بی این پی مینگل کے آغا حسن، نیشنل پارٹی کے نواب محمد خان شاہوانی، پشتونخواہ میپ کے جمال ترہ کئی، بلوچستان عوامی پارٹی کے پرنس احمد علی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدوار شامل ہیں مگر مقابلہ قوم پرست جماعتوں کے درمیان زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔
اسی طرح این اے 264 جوکچلاک، پنجپائی، نواں کلی، شیخ ماندہ، خروٹ آباد، ہزارہ ٹاون، کرانی، اے ون سٹی، پشتون باغ، کلی خیزی، سمنگلی، موضع سردار، سملئی، چشمہ، بلیلی،نوحصار، کلی عمر پر مشتمل ہے، موجودہ این اے 264 کے کچھ حلقے ماضی میں این اے 259 اور 260 میں شامل تھے۔اس حلقے میں پشتونخواہ میپ کے عبدالرحمن بازئی، ایم ایم اے کے مولانا عصمت اللہ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ شہر میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر اس بار قوم پرستوں نے نئی حکمت عملی کے ساتھ مضبوط امیدوار میدان میں اتارے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہوگی کہ معرکہ مارنے میں کامیاب ہوجائیں البتہ متحدہ مجلس عمل اور پی ٹی آئی نے بھی ان حلقوں میں اپنے انتخابی مہم کو تیز کردیا ہے لیکن ان کیلئے کامیابی حاصل کرنابہت مشکل ہے۔
بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کے ان تین نشستوں کی اہمیت سیاسی حوالے سے اپنی جگہ موجود ہے مگر یہاں کے بنیادی مسائل ماضی کے حکمران حل کرنے میں ناکام رہے۔ اگر کہاجائے کہ ان کی ترجیحات میں شہر کے بنیادی مسائل کا حل کبھی رہا ہی نہیں تو غلط نہ ہوگا۔
اربوں روپے کے پیکج کا اعلان تو کیا گیا مگر کوئٹہ شہر میں نہ تو پانی کا مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی سیوریج کا کوئی نظام بن سکا، تعلیم اور صحت کی صورتحال بھی ابتر ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے خطیر رقم کہاں خرچ ہوئی ،اس کا جواب کوئی نہیں دیتا۔
شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کو درپیش چیلنجز کیلئے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ کوئٹہ شہر کی اہمیت صرف ووٹوں تک ہی نظرآرہی ہے ، نئی بننے والی حکومت اس شہر پرکتنی توجہ دے گی اور لوگوں کے مسائل حل کرے گی ،اس کافیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
کوئٹہ کی اہمیت ووٹوں تک
وقتِ اشاعت : July 23 – 2018