|

وقتِ اشاعت :   July 24 – 2018

کوئٹہ:جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل ومجلس عمل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل پی بی 32 کے نامزد امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ صوبے کو مجلس عمل کی قیادت کی ضرورت ہیں ہم ملک اور صوبے کی خوشحالی کیلئے ہماری قیادت کے پاس روڈ میپ ہے جسکے ذریعے عام لوگوں کو فائدہ ہو ، ہم سسٹم کو ٹھیک کرینگے تاکہ گزشتہ ادوار میں یہاں پہ بسنے والی قوموں کو انکے حقوق مل سکے، ملک میں نظام مصطفٰی کے عملی نظام کے نفاذ کے قانون سازی کرینگے۔

بلوچستان کے کھوئے ہوئے امن کو واپس لائینگے،طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ اور مربوط نظام تعلیم کو متعارف کرائیں گے جہاں امیر غریب ایک کلاس میں تعلیم حاصل کر سکیں، کوئٹہ سٹی میں ہیلتھ کے مراکز کو فعال اور اور ہر گاؤں میں اسکو وسعت دینگے جبکہ سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کیساتھ مزید سہولیات مہیا کیا جائیگا۔

بلوچستان کے زمینداروں اور عوام کیلئے فراہمی آب کے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے پانی کی کمی کو دور کیا جائیگا،کوئٹہ شہر کی تزئین وآرائش کیساتھ سیوریج سسٹم کو ٹھیک کرکے تعفن زدہ ماحول کو بہتر بنائینگے،نوجوانوں کیلئے روزگار مکمل میرٹ کے تحت جبکہ معذور اور تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کیلئے وظائف مقرر کرنے کی پالیسی تشکیل دینگے،صوبے سے اقرباء پروری اور کرپشن کا مکمل خاتمہ اولین ترجیح ہے۔ 

ان خیالات کا اظہار جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل ومجلس عمل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل پی بی 32 کے نامزد امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری نے مسلم اتحاد کالونی،بڑیچ ٹاون اور نیو پشتون آباد میں مختلف اجتماعات اور کارنر میٹنگز سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ملک اور صوبے کو مجلس عمل کی شفاف قیادت کی ضرورت ہے صوبے میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے کوشش کرینگے کہ تمام مسائل کم وقت میں حل ہوں مجلس عمل کی قیادت کے پاس روڈ میپ ہے جس پہ عمل کرکے صوبے کو خوشحال اور ترقی یافتہ صوبہ بنائینگے کہ یہ صوبہ دوسرے صوبوں کیلئے ایک رول ماڈل ہو ۔

انہوں نے کہا کہ مسائل میں زیادتی کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں سسٹم ٹھیک نہیں ہم سسٹم کو ٹھیک بنائینگے کہ لوگ مسائل کے حل کیلئے سسٹم کی طرف رجوع کریں اگر صوبے کی ترقی کیلئے ہمسایہ ممالک کیساتھ بات چیت کی ضرورت ہوئی تو کردار ادا کرینگے انہوں نے کہا کہ ملک میں نظام عدل کے قیام کیلئے قانون سازی کرینگے تاکہ ہم سیاسی اور معاشی طور پر اپنے پاوں پہ کھڑے ہوسکے ۔

انہوں نے کہا کہ قیام امن کیلئے بنیادی ضرورت نظام عدل ہے نظام عدل سے دوری کی وجہ سے ہم مسائل کا شکار ہے بیرونی اور اندرونی سازشوں کا مقابلہ کرکے صوبے کو ترقی یافتہ صوبہ بنائینگے ۔

انہوں نے کہا کہ نظام تعلیم کو عام آدمی کی دسترس میں لائینگے بلوچستان میں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور مزدوری کرتے ہیں ایسا نظام متعارف کرائیں گے جہاں غریب اور امیر کا بچہ ایک چٹائی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں اور نظام تعلیم کو مربوط بنائینگے ۔

انہوں نے کہا کہ ہیلتھ کے مراکز میں مزید سہولیات کیساتھ ہر گاؤں میں ہیلتھ کے بہترین مراکز قائم کرینگے کہ لوگوں کو مریضوں کو شہر لانے کی بجائے گاؤں میں ہی علاج کی تمام سہولیات میسر ہوں اور تمام سرکاری اسپتالوں میں ادویات کیساتھ مفت علاج کو یقینی بنائینگے ۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت دور کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے پانی کی قلت کو دور کرینگے اور فراہمی آب کیلئے زمینداروں اور کسانوں کیلئے پالیسی بنائینگے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر کی تزئین و آرائش کیلئے اقدامات کیساتھ شہر کے سیوریج سسٹم کو بھی ٹھیک کرینگے کہ لوگوں کو اس تعفن زدہ ماحول سے نجات مل سکے ۔

انہوں نے کہا کہ نوکریوں کی مکمل میرٹ پہ تقسیم جبکہ بیروزگار نوجوانوں اور معذوروں کیلئے وطائف مقرر کرینگے دریں اثناء جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ترجمان این اے 266سے متحدہ مجلس عمل کے نامزد امیدوار حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ 25جولائی کو عوام اپنے فیصلہ کن ’’ووٹ‘‘ کے ذریعے کرپشن اور ’’برادری ازم ‘‘کے بت کو پاش پاش کردیں گے ۔

ماضی کے بے اختیار اقتدار کے سورج کے غروب کادن ہوگاکیوں کہ 27 جولائی کو ویسے بھی اس صدی کا ایک بڑا چاند گرہین متوقع ہے ۔ وہ اپنے حلقہ انتخاب رئیسانی ٹاؤن،ہزار گنجی، محمد طاہر توحیدی کی رہائشگاہ، مغل آباد، کلی احمد خانزئی، مسلم اتحاد کالونی، کرانی روڈ، مغربی بائے پاس، اختر آباد، اتحاد کالونی میں عوامی اجتماعات سے خطاب کررہے تھے ۔

ان اجتماعات سے پی بی 32کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری، پی بی 31کے امیدوار میر اسحاق ذاکر شاہوانی، پی بی 30کے امیدوار مولوی حکیم محمد عیسیٰ، مولانا علی محمد، مولانا حسین احمد شرودی، قاری انوار الحق حقانی، حافظ منیر احمد ایڈوکیٹ، سردار احمد خان شاہوانی، حافظ زبیر احمد، سردار اسد خان شاہوانی، حافظ خلیل احمد سارنگزئی ، مولانا محمد طاہر توحیدی نے بھی خطاب کیا۔

حافظ حسین احمد نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو ستر سال سے پسماندگی سیاسی اور معاشی طور پر بدحالی سے دو چار کرنے والے عناصر ایک بار پھر اپنے ناجائز کمائی گئی دولت کے بل بوتے ، قومیت، برادری اور مفادات کی لالچ دھونس اور دھاندلی کے تمام حربے استعمال کررہے ہیں جبکہ گذشتہ پانچ سالوں میں قومیت اور عصبیت کے ذریعہ اور خلائی مخلوق کی بیساکیوں کے ذریعہ خلائی مخلوق یعنی عوام پر مسلط ہونے والے اب نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں ۔

کل ایک ’’خٹک‘‘ کی انگلی پکڑ کر اپنے پورے خاندان کو ’’اقتدار محل‘‘میں پہنچانے والے اب انتخابات سے بائیکاٹ کی دھمکی دے رہے ہیں حالانکہ اب عوام نے خود ان کے اقتدار کا بسترگول کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اور پٹھان کو لڑا کر اپنی سیاسی دوکانداری چمکانے والے ایک بار پھر بلوچ اور پٹھان کے درمیان منافرت پھیلانے میں مصروف ہیں ، آج انتخابی مہم میں پشتون علاقوں میں عوام کو جمعیت کے بلوچ نمائندوں کو ووٹ نہ دینے کی تلقین کرنے والے عناصر پشتون کے نام پر پشتونوں سے ووٹ لے کر ممبر صوبائی اسمبلی بننے والوں نے صوبائی اسمبلی میں کیا ۔

وزیر اعلیٰ کے لیے ڈاکٹر عبدالمالک اچکزئی اور پھر نواب ثناء اللہ کاکڑ کو وزارت اعلیٰ کا ووٹ نہیں دیا، جب مفادات بھائی کے لیے گورنر شپ اور تمام خاندان کے لیے مناصب و عہدوں کا مسئلہ ہو تو میاں نواز شریف بھی خاندانی پشتون قرار پاتے ہیں ۔

حالانکہ چند سال قبل قندہاری بازار میں سیاہ جھنڈوں سے نواز شریف مردہ باد کے نعرے لگانے والے یہی حضرات تھے ، حافظ حسین احمد نے کہا کہ نگران سیٹ اپ کے بعد گورنر بلوچستان کی حیثیت سے ایک پارٹی رہنما کی موجودگی اور گورنر ہاؤس کو ایک قوم پرست پارٹی کے ’’الیکشن سیل‘‘میں تبدیلی نے نگران سیٹ اپ کو بری طریقہ سے ’’اپ سیٹ‘‘ کیا ہے اور عملاً نگرانوں کی نگرانی گورنر ہاؤس میں ناکام رہی ہے۔