|

وقتِ اشاعت :   August 6 – 2018

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے 1997ء کے انتخابات کے بعد اس بار 7 صوبائی جبکہ تین قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں۔ بلوچستان میں جہاں قوم پرستی کی سیاست دم توڑ رہی تھی وہی بی این پی مینگل نے کٹھن حالات کامقابلہ کرتے ہوئے اسے زندہ رکھا جس کیلئے بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے اس دوران جیل کی صعوبتیں کاٹیں یہاں تک کہ مشرف دور میں انہیں پنجرے میں بند کرکے عدالت میں پیش کیا گیا ۔

اس کے علاوہ بی این پی مینگل کے رہنماؤں کو شہید بھی کیا گیا مگر مضبوط اعصاب کے ساتھ بی این پی مینگل کے قائدین اور ورکروں نے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے بلوچ عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کیں جس کے نتائج 2018کے عام انتخابات میں دیکھنے کوملے۔ 

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ایک پریس کانفرنس کے دوران برملا اس بات کا اظہار کیا کہ وزارت اعلیٰ ان کی جماعت کا حق ہے مگر اس کیلئے کسی سے بھیک نہیں مانگیں گے ، بلوچستان کے جملہ مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں میٹ دی پریس کے دوران بی این پی مینگل نے بلوچستان کی مجموعی صورتحال پر بات کی جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی این پی مینگل مکمل بااختیار حکومت چاہتی ہے جس میں کسی کی مداخلت نہ ہواور بلوچستان کے فیصلے یہاں کی جماعتیں ہی کریں جس کی ایک جھلک اسلام آباد میں دیکھنے کو ملی جب سردار اختر مینگل نے بنی گالہ کا رخ نہیں کیا ۔ 

بی این پی مینگل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان نے اب تک جمہوریت کی جھلک نہیں دیکھی اور سیاسی جماعتوں سے اب بھروسہ اٹھ چکا ہے کیونکہ اتنے دھوکہ ملے ہیں کہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کیاجاسکتا البتہ تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کیلئے دروازے کھلے ہیں۔ 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی این پی مینگل کوہر اس آپشن پر جانا چائیے جہاں بلوچستان کا مفاد ہو،خاص کر اس بار بی این پی کو حکومت کا حصہ بننا چاہئے چاہے اسے باپ کے ساتھ یا جے یوآئی ف اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ملکر مخلوط حکومت بنانی پڑے کیونکہ بلوچستان کے عوام یہ امید اور توقع رکھتے ہیں کہ ان کے مسائل کو بی این پی حکومت میں رہ کرحل کرسکتی ہے کیونکہ گزشتہ کئی ادوار سے بی این پی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے ۔

مگر اس بار وہ حکومت کا حصہ بن کر یہاں موجود بیروزگاری، معاشی بدحالی سمیت دیگر بحرانات سے بلوچستان کو نکالنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بی این پی اس بار بھی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گئی تو بلوچستان کے عوام مایوس ہونگے اور جو امید یں وابستہ کی گئی تھیں وہ سب خاک میں مل جائینگی ۔

اس لئے ضروری ہے کہ بلوچستان کے عوام کی خواہشات کومد نظر رکھتے ہوئے بی این پی کوحکومت کا حصہ بننا چاہئے کیونکہ اس کے پاس ایک اچھی ٹیم بھی موجود ہے جو بہتر انداز میں حکومت میں رہ کر اپنا کردار ادا کرسکتی ہے اور بلوچستان کے جملہ مسائل کو کسی حد تک حل کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ 

فی الوقت یہ کہنا مشکل ہوگا کہ بی این پی کا اگلہ لائحہ عمل کیا ہوگا مگر اس بار بی این پی کے قائدین کو سوچ وبچار کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان فیصلوں کے ساتھ ان کے ورکرز اور عوام کے جذبات وابستہ ہیں جو اس بار بلوچستان کو بدحالی سے نکالنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور ان کی نظریں بی این پی پر لگی ہوئی ہیں۔