|

وقتِ اشاعت :   August 6 – 2018

 اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ چوری کا پیسہ ہضم نہیں کرنے دیں گے۔

سپریم کورٹ میں جعلی بنک اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ اسکینڈل کی سماعت ہوئی۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ 29 مشکوک اکاؤنٹس ہیں جو سمٹ بنک ،سندھ بنک اور یونائیٹڈ بنک میں کھولے گئے، ان کے ذریعے مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئیں، اومنی گروپ نے 2082 ملین روپے جعلی بنک اکاؤنٹس میں جمع کرائے اور مشکوک بنک اکاؤنٹس سے رقم زرداری گروپ کو بھی منتقل ہوئیں، جعلی اکاؤنٹس میں 35 ارب کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ  نواز شریف والی جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، وہی جے آئی ٹی بنے گی تو بیلنس ہو جائے گا، جعلی اکاؤنٹس کھول کر کالا دھن جمع کرایا گیا، آصف علی زرداری کے وکیل کہتے ہیں تحقیقات ہی نہ کریں، لوگ کہتے ہیں چیف جسٹس کو معلوم نہیں کس پر ہاتھ ڈال دیا ہے، چیف کو لگ پتا جائے گا، آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم دھمکیاں دینے والوں سے نہ لڑیں، مجھے زندگی موت کی کوئی پروا نہیں، چیف ہاتھ ڈال رہا ہے تو کسی سے ڈرتا نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کالا دھن کو سفید کرنے کا بینفیشری کون ہے، چوری کا پیسہ ہضم نہیں کرنے دیں گے، آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کریں گے۔

آصف زرداری اور فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے درخواست کی کہ اس مقدمہ میں بہت سے لوگ بدنام کیے جا رہے ہیں، عدالت مقدمہ کی پبلسٹی روکے، منی لانڈرنگ کا مقدمہ حسین لوائی اور سمٹ بنک کیخلاف ہے، ایف آئی آر میں آ صف زرداری نامزد نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن پر الزام ہے وہ شامل تفتیش ہوکر خود کو کلیئر کریں۔

مرکزی ملزم انور مجید کے وکیل نے کہا کہ انور مجید بیمار اور دبئی کے ہسپتال میں داخل ہیں، اس لیے پیش نہیں ہوسکتے، انور مجید کے بچے بھی بیرون ملک ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب باہر ہیں تو وکالت نامے پر دستخط کس نے کیے، بڑے آدمیوں کیلئے قانون مختلف نہیں ہوسکتا، انور مجید اور دیگر لوگوں کے بیان ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں، اگر کوئی بیمار ہے تو اسٹریچر پر آجائیں۔

ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ کیس کے گواہوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، تمام اکاوٴنٹ ہولڈر غریب لوگ ہیں، اچھے کارپوریٹ وکیل کی بھی ضرورت ہے، یہ اسکینڈل 35ارب سے کہیں زیادہ کا ہے، ہمیں مزید جعلی اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشن مل سکتی ہیں۔

طارق سلطان نے پیش ہوکر بتایا کہ میرے نام سے جعلی اکاؤنٹ کھولا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنا بڑا فراڈ ہوا ہے، کرپشن کے معاملات پر عدالت عظمی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دیتے ہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، ہمارا اختیار ہے کہ کرپشن کو پکڑیں، یہ قوم کا پیسہ ہے۔

سپریم کورٹ میں جعلی اکاؤنٹ ہولڈر خاتون نے پیش ہوکر بتایا کہ انہیں کراچی کے تھانہ گلستان جوہر سے کال آئی اور ہراساں کیا گیا،  میرے گھر پولیس آکر رات 12 بجے تک بیٹھی رہی، نوکری کے پانچ روز بعد مجھ سے سادہ اکاؤنٹس اوپننگ فارم پر دستخط کرائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے معلوم ہے پولیس کس نے بھجوائی، سندھ حکومت نے کچھ ایسا ویسا کیا تو چھوڑیں گئے نہیں، چوری کا پیسہ ہضم نہیں کرنے دیں گے۔

ایک اور جعلی اکاوٴنٹ ہولڈر خاتون عدالت میں پیش ہوئیں جن کے نام پر اکاؤنٹ میں سوا ارب روپے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ غریب عورت ہوں ،عدالت نہیں آسکتی، مجھے کسی اکاؤنٹ اور رقم کا علم نہیں۔ شہری عدنان نے پیش ہوکر بتایا کہ ان کے نام پر بھی جعلی اکاوٴنٹ کھولے گئے جس میں آٹھ ارب روپے ہیں۔ سمٹ بینک منیجر کے بھائی احسن شاہ نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ مجھے گزری تھانے میں بلوا کر ہراساں کیا گیا،  لاڑکانہ میں ہماری زمینوں پربھی قبضہ کر لیا گیا۔

چیف جسٹس نے آئی جی سندھ پولیس جاوید سلیمی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ پولیس کیخلاف حبس بے جا کا مقدمہ درج کریں، مجھے معلوم ہے تم کس قسم کی نوکری کرتے ہو، معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لاوٴں گا، کس کے کہنے پر لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے؟ بدھ کو عدالت میں رپورٹ پیش کریں، جس آنے والے وزیر کے کہنے پر سب ہوا اسے بھی جانتا ہوں۔

سپریم کورٹ نے ملزمان انور مجید، عبدالغنی، علی مجید اور ثمر مجید کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا۔ عدالت نے کراچی پولیس چیف مشتاق مہر کو کیس سے فوری الگ کرنے کا حکم دیتے ہوئے بینکنگ کورٹ میں جاری کیس کی فائل بھی طلب کرلی اور سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔