کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی حکومت سازی کیلئے اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اندرونی طور پر خلفشار کا شکار انتخابات میں ناکام ہونے والے پارٹی کے بعض رہنماؤں نے بھی نئی حکومت میں کلیدی عہدوں کیلئے لابنگ شروع کردی بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں آنے باو جود اندرونی طور پر سخت دباؤکا شکار ہوگئی ہے۔
پارٹی کی جانب سے اتفاق رائے سے پارلیمانی لیڈر منتخب ہونے کے بعد جام کمال نہ صرف پارٹی کے ایم پی ایز کے دباؤ میں ہیں، بلکہ انتخابات میں ناکام ہونے والے پارٹی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے بھی حکومتی عہدوں کی فرمائش لیکر آنے والوں نے انہیں مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔
بتایا جاتاہے کہ ان انتخابات میں ناکام پارٹی کے رہنماؤں کی شفارش میں بعض ایم پی اے پیش پیش ہیں، جن کی خواہش ہے کہ نہ صرف انہیں وزارتیں ملے بلکہ ان کے ہارے وہ دوست جوکہ گزشتہ حکومت میں اچھی وزارتوں اور عہدوں پر فائز رہے ہیں، انہیں بھی حکومتی عہدوں میں اکاموڈیٹ کیا جائے جن میں ایڈوائزر وکواڈینیٹر جسے عہد ے شامل ہیں۔
بتا یا جاتا ہے کہ بعض رہنماء گورنر شپ کے امیدوار بھی میں ہے جوکہ پارٹی قیادت پر یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ انکے نام گورنر شپ کیلئے پارٹی سطح پر دیئے جائے،پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر منتخب افراد کو ایڈوائزر کے عہدے پر نہیں لگایا جاسکتا جبکہ وزاتوں کی تقسیم کا فارمولا بھی ابھی تک پارٹی کی قیادت نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کرطے نہیں کیا۔
پارٹی کے اندر وزارتوں اورمشیروں کے معاملے پر بھی کافی دباؤ ہے جبکہ انتخابات میں ناکام ہونیوالے پارٹی کے بعض ارکان نے پارٹی قیادت کیلئے ایک نیا معاملہ کھول دیا ہے ۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بی اے پی کی قیادت کو حکومت سازی میں جہاں باہمی مشاورات سے چلنے کیلئے نقاط پیش کئے گئے ہیں ان میں ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ اگر انکی حکومت نے اپنی جماعت کے غیر منتخب افراد کو کوئی حکومتی عہدے دیا تو انکی جماعت سے بھی غیر منتخب افراد کو ایسے حکومتی عہدے دینے ہوں گے ۔
ذرائع کے مطابق اگر یہ پنڈورا بکس کھلتا ہے تو پھر جام کمال کی مخلوط حکومت کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا ،جس کی موجودہ صورتحال متحمل نہیں ہوسکتی ،بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تبدیلی کے حوالے سے باتیں ہورہی تھی وہ بی اے پی کے بعض پارٹی رہنماؤں کے طرز عمل اور رویوں کی وجہ سے خواب بنتا جارہاہے اور وہ ہی ماضی کی روش اختیار کی جارہی ہے جو مستقبل میں نہ صرف بی اے پی کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ صوبے کی سیاست پر بھی منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جام کمال کی قیادت میں قائم کرنیوالی حکومت میں ماضی کی روش کو برقرار رکھا تو پھر گڈگورننس اور کرپشن کے خاتمے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور اس جماعت کا انجام بھی مسلم لیگ (ن) سے مختلف نہیں ہوگا ۔
بی اے پی اکثریت کے باوجود اندرونی خلفشار کا شکار ، پارٹی میں لابنگ شروع
وقتِ اشاعت : August 7 – 2018