بلوچستان کی سیاست میں شخصیات کی اہمیت اور اثر ہمیشہ رہا ہے جس کی ایک وجہ قبائلی معاشرہ ہے مگر اسی کو بنیاد بناکر نہیں کہاجاسکتا کہ قبائلی معاشرے کی وجہ سے یہاں پارلیمان مضبوط نہیں رہا جس کی ایک جھلک ہمیں 72ء کی دہائی اور اس سے قبل انگریزوں کے خلاف ایک طویل جدوجہد کے طور پر ملتی ہے کہ یہاں کے قبائلی وسیاسی شخصیات نے سرزمین کی بقاء سلامتی اور عوام کیلئے قربانیاں دیں اور ایک پختہ نظریہ کے ساتھ اپنی سیاست کو جاری رکھا۔
گزشتہ چند دہائیوں سے بلو چستان کی سیاست کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے جس کی ایک وجہ تو چند سیاسی شخصیات خود ہیں جنہوں نے گروہی مفادات اور اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کیلئے نہ صرف ترقیاتی عمل میں رکاوٹ پیدا کی بلکہ یہاں جمہوری عمل کوتواتر کے ساتھ چلنے نہیں دیا اور ہرغیر جمہوری عمل کا حصہ بنے جس کی ماضی گواہ ہے۔
دوسری جانب بلوچستان میں ایک مضبوط سیاسی جماعت کی بنیاد نہیں رکھی گئی جس کی وجہ شخصیات کاحاوی ہونا ہے۔ غیر جمہوری ادوار سے ہٹ کر ہم جمہوری ادوار پر بھی نظر دوڑائیں تو بلوچستان میں حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی جس کی وجہ شخصی وگروہی مفادات ہیں۔ بلوچستان وسائل سے مالا مال صوبہ ہونے کے باوجود سب سے پسماندہ ترین صوبہ ہے۔
بدقسمتی سے سڑکیں،پانی،سیوریج، صحت، تعلیم جیسی اہم بنیادی سہولیات تک میسر نہیں جس کی ذمہ داری ان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جو عرصہ دراز سے حکمرانی کے تخت پر بیٹھے رہے ہیں۔ بلوچستان کا ذکر جب ملکی سطح پر آتا ہے تو معلومات سے عاری افراداسے سرداری نظام پر تھونپ دیتے ہیں جبکہ انہوں نے خود پورے بلوچستان کا دورہ توکجا ایک علاقے کا دورتک نہیں کیا جو ملک کے نصف حصہ پر مشتمل صوبہ ہے۔
بلوچستان میں حکمرانی کا موقع تو سب کو میسر آیا مگر اس کی ترقی میں کسی کا بھی کردار نظرنہیں آتا ، ہمارے یہاں کے سیاستدان بلوچستان کے مسائل کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر جان چھڑاتے ہیں ۔البتہ اس بار مرکز کو قصور وارٹھہراکر انہی کے سابقہ اتحادیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بلوچستان کے معاملات پر یہاں کے نمائندوں کی رائے نہیں لی جاتی اوراسلام آباد تمام فیصلے اپنے طور پر اپنے مفادات کے تحت کرتا ہے۔
بلوچستان کے عوام اس طرز عمل کا خاتمہ چاہتے ہیں کہ اب کے بار بلوچستان کو ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کیلئے یہاں کے عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے گی۔ بلوچستان میں نئی حکومت بننے جارہی ہے جن میں بعض تو پرانے چہرے ہیں ۔
جبکہ کچھ نئے منتخب ارکان بلوچستان کی تخت حکمرانی پر نظر آئینگے اور اس بار بھی اتحادیوں کی تعداد زیادہ ہونے کے ساتھ کابینہ کا حجم بھی زیادہ ہی ہوگا جو سابقہ روایات کی عکاسی کرتا ہے مگر امید ہے کہ سابقہ سیاسی روایات کو نہیں دہرایا جائے گا جو بلوچستان کی سیاست کی بدنامی کاسبب بنتاآیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بننے والی نئی حکومت کوسب سے پہلے افسر شاہی کے چنگل سے بلوچستان کو نکالنا پڑے گا جنہوں نے کرپشن کو یہاں تقویت دی ، عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا اور بڑے بڑے میگا منصوبوں پر مال بٹورے ۔
لہذاگڈ گورننس قائم کرنے کیلئے بلا تفریق اور سیاسی مصلحت پسندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے عناصر کی سرکوبی نا گزیر ہے جو یہاں کی ترقی میں رکاوٹ بننے کے ساتھ ساتھ سازشوں میں ملوث رہتے ہیں۔ امید ہے کہ نئی بننے والی حکومت بلوچستان میں ایک مثال قائم کرے گی اور ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائے گی۔
بلوچستان میں افسر شاہی کی مداخلت کا خاتمہ ضروری
وقتِ اشاعت : August 7 – 2018