2000ء کے دوران بلوچستان کے حالات کروٹ بدل رہے تھے ۔ 2002ء میں جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے انتخابات کرائے ،ق لیگ کی حکومت بنی ، بلوچستان میں سیاسی صف بندی کا آغاز ہوا، پرویزمشرف نے حسب روایت بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر معافی مانگی اور بلوچستان کی ترقی کے سنہرے خواب یہاں کے عوام کو دکھائے مگر بلوچستان کی بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کااظہار کرتے ہوئے ساحل وسائل پر حق حاکمیت کا مطالبہ کیا۔
2004ء میں چار جماعتی اتحادتشکیل دی گئی جس میں جمہوری وطن پارٹی، بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی اور حق توار شامل تھے۔ اس دوران بلوچستان کی سیاست کا محور ومرکز کاہان اور ڈیرہ بگٹی تھے جہاں سیاسی اجتماعات منعقد ہوئے اورپرویز مشرف کے اس وقت کی پالیسیوں کے خلاف جلسے جلوس نکالے گئے۔
چار جماعتی اتحاد نے بلوچستان کی ترقی کو بلوچوں کے واک واختیار سے مشروط کررکھی تھی مگر مطالبات پر غور کرنے کی بجائے پرویز مشرف نے طاقت کا مظاہرہ کیا اوریوں بلوچستان کے سیاسی حالات پر تشدد حاوی ہوتا چلاگیا۔ بلآخر نواب اکبرخان بگٹی کے قلعے پر حملہ کیا گیا جس میں متعدد افراد جاں بحق ہوگئے ۔
نواب اکبر خان بگٹی نے پہاڑوں کا رخ کیا ، 26 اگست 2006ء کو تراتانی کے پہاڑی علاقے میں آپریشن کے دوران انہیں شہیدکردیا گیا۔نواب اکبر خا ن بگٹی کی شہادت نے بلوچستان بھر میںآگ لگادی اور حالات انتہائی گھمبیر ہو تے گئے ۔
چار جماعتی اتحاد بکھر کر رہ گئی ۔بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی عدم تشدد اور پارلیمان کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کا حل چاہتی تھی ۔ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس دوران ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا جس کے نتیجے میں انہیں پابند سلاسل کیا گیا ، اور عدالت میں انہیں ایک پنجرے میں بند کرکے پیش کیا گیا۔
اس دوران وہ علیل ہوگئے ، رہائی کے بعد علاج کیلئے انہیں بیرون ملک جانا پڑا مگرکچھ عرصے کے بعد سردار اختر مینگل پھر وطن واپس آگئے اور اسلام آباد پہنچ گئے۔ مرکز میں اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی ،اس دوران عمران خان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے سردار اختر مینگل سے ملاقات کی تو اس وقت بھی سردار اختر مینگل نے اپنے چھ نکات سامنے رکھے لیکن کسی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
بی این پی مینگل نے عام انتخابات میں اس بار بہتر پوزیشن حاصل کی مگر صوبے میں حکومت سازی کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے انہوں نے بلوچستان ہاؤس اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان کے جملہ مسائل کو ایک بار پھر سامنے رکھ دیا ۔
کوئٹہ خاران ہاؤس میں پی ٹی آئی کے قائدین شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نے سردار اختر جان سے ملاقات کرکے چھ نکاتی معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ بلوچستان اور مرکز کے درمیان موجود فاصلوں کی ایک وجہ غیر سنجیدگی بھی ہے ۔
کیونکہ بلوچ قیادت اور عوام کی جانب سے جب بھی بنیادی مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وفاق انہیں نظرانداز کرکے اسے بلیک میلنگ کا نام دیتاہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بات چیت کی بجائے معاملات طاقت کے استعمال پر آکر رک جاتے ہیں۔
اس بار پی ٹی آئی سے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں سمیت عوام کی بھی توقعات وابستہ ہیں کہ وہ بلوچستان کے ان اہم مسائل کوجن کی نشاندہی کی گئی ہے ،انہیں حل کرنے کیلئے ذمہ دار حکمران ہونے کا ثبوت دینگے تاکہ بلوچستان جو کئی دہائیوں سے عدم توجہی اور محرومیوں کا شکار ہے ، ان کا کچھ مداوا ہوسکے۔
6نکات، بلوچستان اورمرکزمیں فاصلے
وقتِ اشاعت : August 13 – 2018