|

وقتِ اشاعت :   August 20 – 2018

جام کما ل خان بلوچستان کے 16 ویں وزیراعلیٰ بن گئے، جام کمال خان کو 39 ووٹ ملے جبکہ ایم ایم اے کے یونس زہری نے 20 ووٹ لئے۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد اب کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے شنید میں ہے کہ 12 ارکان کی کابینہ بنے گی۔ 

بلوچستان اسمبلی اجلاس کے دوران نومنتخب وزیراعلیٰ نے ماضی کی غلطیوں کو واضح طور پر اپنے خطاب میں اجاگر کیا۔ جام کمال خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی پسماندگی و بدحالی کی ذمہ دار ماضی کی حکومتیں رہی ہیں جنہیں بلوچستان کے اہم میگا منصوبوں سمیت مالی معاملات کے حوالے سے کوئی علم نہیں جس کی وجہ سے مرکز میں بلوچستان کا معاملہ صحیح معنوں میں نہیں اٹھا یاگیا، یہاں تک کہ این ایف سی ایوارڈپربھی ماضی میں توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث بلوچستان شدید مالی بحران کا شکار رہا۔ 

نئے وزیراعلیٰ نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ محض ترقی کے دعوے اور نعرے نہیں لگائینگے بلکہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اپنے فرائض کو احسن طریقے سے نبھائینگے جس میں اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مرکز اور صوبے میں بننے والی نئی حکومت کے قائدین پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ کسی کو بھی کرپشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، عوامی حقوق کا ہر لحاظ سے تحفظ کیا جائے گا جو کہ ماضی کے حکمرانوں نے نہیں کیا۔ 

اس وقت بلوچستان بہت ساری مشکلات سے دوچار ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہاں کے وسائل کی لوٹ مار ہے ۔اس کے وسائل سے وفاقی حکومتوں اور صوبہ کے کرپٹ عناصر نے بھرپور منافع کمایا جبکہ بلوچستان کو اس کا جائز حصہ بھی نہیں دیا گیا ۔المیہ یہ ہے کہ جتنے منافع بخش منصوبے ہیں، ان کا سارا مالی فائدہ وفاق اٹھارہا ہے مگرجب کسی منصوبے میں کوئی اونچ نیچ ہوجاتی ہے تو مرکز اپنا ہاتھ کھینچ لیتی ہے جس کی واضح مثال ریکوڈک ہے۔ جب اس کیس میں جرمانہ عائد کیا گیا تو ن لیگی حکومت نے جرمانہ بلوچستان کے اوپرڈال دیا ۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی بلوچستان اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں ہے، اس کے وسائل سے متعلق فیصلے اور معاہدے اب بھی اسلام آباد کرتا ہے اور دکھاوے کے لیے صوبے کا کوئی کٹھ پتلی معاہدے پر دستخط کے وقت موجود ہوتا ہے ۔اب یہ نئی حکومت کا امتحان کا ہے کہ وہ بلوچستان کے وسائل کا دفاع کیسے کرتی ہے اوران وسائل کا مالک بن کر دکھاتی ہے۔ 

سوئی گیس، سیندھک، ریکوڈک ، گوادر پورٹ، وسیع ساحلی پٹی اور کھلے سمندر کا مالک ہوتے ہوئے اہل بلوچستان کی کسمپرسی سوالیہ نشان ہے۔اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔اہل بلوچستان اب بھی پر امید ہیں کہ ان کے حالات بدلیں گے، اس امید کو قائم رکھئیے، کیونکہ جب امید ٹوٹ جاتی ہے تو پھر کوئی بھی چیزکوئی معنی نہیں رکھتی ۔اس باریک سے نکتے کو نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ صوبائی حکومت نے بھی سمجھ کر آگے چلنا ہے۔