بلوچستان میں پہلے مرحلے میں 11 اراکین پرمشتمل صوبائی کابینہ تشکیل دی گئی ہے،بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد کے لحاظ سے کابینہ مجموعی طور پر 19 اراکین پر مشتمل ہو گی جن میں 14 وزیر اور پانچ مشیر شامل ہوں گے۔
پہلے مرحلے میں دس اراکین کو وزیر کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ بلوچستان کی مخلوط حکومت بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت میں چھ جماعتی اتحاد پر مشتمل ہے ،پہلے مرحلے میں کابینہ کے جن دس اراکین نے وزیر کی حیثیت سے حلف لیا ان کا تعلق بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل تین جماعتوں سے ہے۔
ان میں میرعارف محمد حسنی، میر ضیاء لانگو، میر سلیم خان کھوسہ، سردار عبد الرحمان کھیتران، سردار سرفراز ڈومکی، نوابزدہ طارق مگسی، سردار صالح بھوتانی اور نورمحمد دمڑ کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے جبکہ انجنیئر زمرک خان اچکزئی کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی اور نصیب اللہ مری کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ کابینہ میں ضیا ء لانگو، نورمحمد دمڑ، نوابزادہ طارق مگسی اور نصیب اللہ مری پہلی مرتبہ کسی صوبائی کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔
کابینہ میں مٹھاخان کاکڑ کو مشیر کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔پہلے مرحلے میں مخلوط حکومت میں شامل جن جماعتوں کو کابینہ میں نمائندگی نہیں ملی ان میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور جمہوری وطن پارٹی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین اور اقلیتوں کو بھی تاحال نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی سے جن اراکین اسمبلی کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ان میں سے تین قبائلی سردار ہیں جبکہ تین کا تعلق مختلف قبیلوں کے سربراہ خاندانوں سے ہے، اس حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی شامل ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں نئی کابینہ تشکیل دیدی گئی ہے مگراب تک ان دس ارکان کے وزارتوں کے محکموں کا اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔
اب کس کو کون سی وزارت ملے گی، یہی اصل مسئلہ ہے۔ دوسری جانب یہ باز گشت بھی چل رہی ہے کہ موجودہ حکومتی اتحادیوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں گوکہ ان خبروں کی سختی سے تردید بلوچستان عوامی پارٹی نے کی ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی نئی بننے والی حکومت کے درمیان اگر اختلافات موجود ہیں تو یہ بلوچستان کیلئے نیگ شگون نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی ماضی میں حکومتی جماعت اور اتحادیوں کے درمیان موجود اختلافات کے باعث حکومتیں اپنی مدت پوری نہیں کرپائیں جس کی وجہ سے بلوچستان جو مسائل اور پسماندگی کا شکار ہے وہ آج تک انہی سیاسی اختلافات کی وجہ سے دور نہیں کی جاسکیں ۔
ماضی کے ادوار پر اگر نظر دوڑائی جائے توجب سردار اختر مینگل کی 1998ء میں حکومت عدم اعتماد کی تحریک سے ختم کی گئی تو اس سے جمہوری عمل رک سا گیا ۔اسی طرح پیپلزپارٹی کے دور میں بھاری بھرکم کابینہ تشکیل دی گئی تاکہ حکومت کو آگے چل کر اختلافات کا سامنا نہ کرناپڑے ۔ پھر مسلم لیگ ن کی حکومت بنی ، اس دوران تین وزرائے اعلیٰ بلوچستان کو ملے ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جام کمال خان سمیت حکومتی اتحادیوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم آہنگی اور متفقہ فیصلوں کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھائیں تاکہ حکومت کو آگے چل کر مسائل کا سامنا نہ کرناپڑے جس کے منفی اثرات بلوچستان پر پڑتے ہیں۔ لہٰذا بہترین سیاسی فیصلوں سے نہ صرف حکومت بہترطریقے سے اپنا کام کرے گی بلکہ بلوچستان کی ترقی کے راستے بھی کھلیں گے اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ بلوچستان کی بہتری کیلئے سیاسی سمت کو کس طرف لیکر جائینگے۔
بلوچستان کابینہ کی تشکیل، سیاسی مشکلات کاسامنا
وقتِ اشاعت : August 29 – 2018