|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2018

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کوئٹہ ترقیاتی پیکج میں شامل منصوبوں کی پیشرفت اور روڈ بائی پاس حب منصوبے سے متعلق امور کا جائزہ لینے کے لئے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعمیراتی منصوبہ بندی میں پائی جانے والی خامیوں کے باعث بہت سے ترقیاتی منصوبے یا تو نامکمل رہ جاتے ہیں یا پھر ان کی افادیت نہیں رہتی جس سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے ۔

لہٰذا تما م تعمیراتی محکمے اور ادارے کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر عملدرآمد سے قبل جامع منصوبہ بندی کریں اور منصوبے ٹھیکے دینے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی ضروریات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر بنائے جائیں۔ 

ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر کوئٹہ پیکج نے اجلاس کو پیکج میں شامل منصوبوں کی پیشرفت سے آگاہ کیا ۔اجلاس کو بتایا گیا کہ 15ارب روپے کے ترقیاتی پیکج میں گیارہ منصوبے شامل ہیں، پیکج کے لئے پانچ ارب روپے سابق وزیراعظم، پانچ ارب روپے سابق وزیراعلیٰ کی جانب سے اعلان کردہ ہیں جبکہ پانچ ارب روپے صوبائی پی ایس ڈی پی میں مختص کئے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں دس ارب روپے کی لاگت سے کوئٹہ ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا ہے جس کے لئے پانچ ارب روپے وفاقی حکومت اور پانچ ارب روپے صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ 

انہوں نے بتایا کہ پیکج کے پانچ منصوبوں جن میں سریاب روڈ کی توسیع، سریاب کے علاقے میں 120کلومیٹر گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر ، جوائنٹ روڈ کی توسیع، سبزل روڈ کی توسیع اور ایئر پورٹ نواں کلی لنک روڈ کی تعمیر شامل ہے ،پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے جبکہ گوالمنڈی چوک کی توسیع، جی پی او چوک پر مجوزہ بائی پاس یا فلائی اوور کی تعمیر ، جوائنٹ روڈ کی توسیع فیز ٹو ، شہر کے مختلف علاقوں میں نکاسی آب اور ریلوے اسٹیشن پر فوڈ سٹریٹ کے قیام کے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جانا ہے۔ 

اجلاس میں تمام منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ان میں پائے جانے والے بعض نقائص اور خامیوں کو دور کرنے کے لئے دوبارہ سروے کرنے کی ہدایت کی گئی۔وزیراعلیٰ بلوچستان کاکہناتھا کہ منصوبوں کے لئے مناسب سروے نہ ہونے کے باعث بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں اور ان کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔ 

وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ کوئٹہ ترقیاتی پیکج میں شامل سڑکوں کی توسیع کے ان منصوبوں پر جن پر تاحال کام کا آغازنہیں ہوا ہے کے لئے متبادل تجاویز کا جائزہ بھی لیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے سریاب روڈ کو دو مقامات سے مشرقی اور مغربی بائی پاس سے ملانے کے لئے لنک روڈ تعمیر کرنے کی ہدایت بھی کی تاکہ سریاب روڈ پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کیا جاسکے۔ 

وزیراعلیٰ نے کوئٹہ ایکسپریس وے منصوبے کا از سرنو جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی جبکہ انہوں نے سڑکوں کی تعمیر سے پہلے ان علاقوں میں نکاسی آب ، پانی اور گیس پائپ لائن کی تنصیب کی ہدایت کی تاکہ بعد میں سڑکوں کو توڑنا نہ پڑے۔ 

کوئٹہ شہر جو 1935ء کے زلزلے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا تو اسی دور کی آبادی کے تناسب کو مدنظر رکھ کر کیا گیا تھا مگر آج کوئٹہ شہر کی آبادی 23لاکھ سے زائد ہوچکی ہے جس کی وجہ سے شہرکے مسائل بڑھ گئے ہیں ۔

آج کے جدید دور میں بھی کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالخلافہ ہے بنیادی سہولیات سے محروم ہے المیہ یہ ہے کہ جن علاقوں سے گیس پائپ لائن گزرتی ہے وہاں گیس تک میسر نہیں اور ساتھ ہی یہاں سیوریج نظام کا کوئی وجود نہیں جبکہ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے جاچکی ہے جس کی ذمہ دار ماضی کی حکومتیں ہیں ۔

اب تک کوئٹہ پیکج سے متعلق جتنے بھی اعلانات کئے گئے ان پر کچھ بھی عملدرآمد نہیں ہوا ہے جس کے باعث کوئٹہ شہر مسائل سے دوچار ہے۔دوسری جانب ٹریفک کا دباؤ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ سڑکوں پر گھنٹوں تک ٹریفک کی روانی متاثر رہتی ہے جبکہ ٹریفک پارکنگ کا نظام بھی موجود نہیں، گزشتہ حکومت نے چار پارکنگ پلازے بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر ایک کی بھی بنیاد نہیں رکھی گئی۔ 

شہر میں ہسپتالوں،شاپنگ مالزکی بڑی بڑی عمارتیں ،بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کی جارہی ہیں جن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجارہا ۔میٹرو پولیٹن آفیسران کا کہنا ہے کہ جب بلڈنگ کانقشہ پاس کیاجاتا ہے اس میں تمام قانونی پابندیاں لاگو کی جاتی ہیں مگر بااثر شخصیات انتظامیہ کے کام میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ 

ضلعی انتظامیہ کے ذمہ دار آفیسر نے میڈیا نمائندوں کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جب بھی ہم ایکشن لیتے ہیں تو بااثر سیاسی شخصیات اور سیاسی جماعت ہمارے کام میں رخنہ ڈالتی ہیں ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ آفیسران کو طلب کرکے انہیں درپیش مسائل سے آگاہی لیکر ان عناصرکے خلاف اقدامات اٹھائیں تاکہ ترقیاتی منصوبوں سمیت کوئٹہ شہر میں موجود مسائل حل ہوسکیں۔