ملک میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرانے کا سہرا بلوچستان کے سرجاتا ہے مگر بلدیاتی اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے کیونکہ ان کے نمائندگان کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
تنخواہوں اور فنڈز میں کمی کی وجہ سے بلدیاتی نمائندگان کو کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ اختیارات بھی انتہائی محدود ہیں جس پر بلدیاتی نمائندگان متعدد بار سراپااحتجاج بھی ہوئے ۔ ماضی کی حکومت نے بلدیاتی اداروں پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے کوئٹہ سمیت اندرون بلوچستان میں بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے۔
گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان سے بلدیاتی نمائندگان کے وفد نے ملاقات کی ،وفد نے وزیراعلیٰ کو بلدیاتی اداروں کو درپیش بعض اہم مسائل سے آگاہ کیا جن میں تنخواہوں اور نان سیلری کی مد میں چھ ماہ سے فنڈز کی بندش بھی شامل ہے ۔
ملاقات میں بلدیاتی نظام میں تبدیلی اور اس میں بہتری لانے کے حوالے سے بات چیت بھی کی گئی،وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ صوبہ میں بلدیاتی نظام حکومت میں تبدیلی اور بہتری لانے کے حوالے سے صوبے کے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے، بلدیاتی نمائندوں سے مشاورت کرکے ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے گا اورحتمی فیصلہ صوبائی کابینہ اور اسمبلی کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کو خودکفیل اور بااختیار بنائے بغیر عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، ہم بلدیاتی اداروں کو بااختیار اور خود انحصار بنانا چاہتے ہیں جس کے لئے بلدیاتی نظام حکومت میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاہم اس ضمن میں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ صوبے کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ کاکہناتھا کہ وہ جلد بلدیاتی نمائندوں سے تفصیلی ملاقات کرکے ان سے مشاورت کریں گے اور نظام کی بہتری کے لئے ان کی تجاویز اور تجربات کو بھی زیر غور لایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر بلدیاتی اداروں کی تنخواہوں اور نان سیلری کی مد میں فنڈزکے فوری اجراء کی ہدایت بھی کی۔
اس سے قبل گزشتہ حکومت نے بھی بلدیاتی اداروں کو فعال اور خودمختار بنانے کا دعویٰ کیا تھا مگر اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا بلکہ ان کے اختیارات مزید محدود کر دیئے گئے جس کی وجہ سے وہ کوئی بھی نتیجہ دینے میں کامیاب نہیں رہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں میئروڈپٹی میئر کے حوالے سے بھی مخلوط حکومت ن لیگ، پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی کے درمیان معاہدہ طے پایاگیا تھا جس کے نتیجے میں میئر پشتونخواہ میپ جبکہ ڈپٹی میئر مسلم لیگ ن کابنا جو سیاسی سودے بازی کا واضح ثبوت ہے، بجائے اس کے کہ صوبے کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے تھا مگر اس کے برعکس سیاسی اتحاد کو ترجیح دی گئی جو محض اقتدارکے حصول تک محدود رہی۔
بلوچستان میں آج جوبھی مسائل موجود ہیں وہ سب ماضی کے غلط فیصلوں کے نتائج ہیں جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی تک کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں اہم کردار نچلی سطح پر انتظامی امور دیکھنے والے اداروں کی ہے جو بہتر انداز میں مسائل کو سمجھتے ہوئے انہیں حل کرسکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام میں تبدیلی کے ساتھ اسے بااختیار بھی بنایاجائے تاکہ یہ بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل ہوسکیں۔
بلدیاتی نظام میں تبدیلی
وقتِ اشاعت : September 6 – 2018