امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایک روزہ دورے پر پاکستان آئے۔ اس دوران انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی موجود تھے۔
اس سے پہلے امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ کے ہمراہ پاکستان آمد کے بعد مائیک پومپیو نے اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کے پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کے درمیان زیادہ گہرے تعاون کی امید کا اظہار کیا۔
بیان کے مطابق اسلام آباد میں ہونے والی ملاقاتوں میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پیغام دیا کہ پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ علاقائی امن اور استحکام کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن اور مستقل اقدامات کرے۔بیان کے مطابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے زور دیا کہ افغانستان میں بات چیت کے ذریعے امن لانے میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
دوسری جانب شاہ محمود قریشی نے میڈیابریفنگ کے دوران بتایاکہ یہ تاثر غلط ہے کہ ٹف ٹالکنگ ہوئی, ڈو مور کا کوئی مطالبہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ سے ملاقاتوں کے دوران پاکستان کا رویہ مثبت تھا۔
پاکستان کا حقیقت پسندانہ موقف پیش کیا، ایسی کوئی بات نہیں کروں گا جس سے قوم کی توقعات بلند ہوں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا میں نے پاکستان کا نقطہ نظر برد باری، خودداری اور ذمہ داری سے پیش کیا۔امریکی اہلکاروں سے ملاقات میں کشیدگی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ کو باڈی لینگویج سے اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ ملاقات خوشگوار تھی۔
شاہ محمودقریشی کاکہنا ہے کہ انہیں امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے اور وہ جب اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے لیے جائیں گے تو اسی دوران ان سے بھی ملاقات کریں گے۔افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ بات عمران خان برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ اس تنازعے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ ہمیں مذاکرات سے معاملات کو حل کرنا ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بھی کہا کہ اس حوالے سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کام کرے گا اور دیگر ادارے بھی ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس سے یہ عندیہ ملا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات کے لیے گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ایک اور معنی خیز بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں غیر معینہ مدت کے لیے نہیں رہنا چاہتا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا قیامِ امن کے لیے تعلقات میں سچائی ناگزیر ہے۔
میں نے انہیں واشگاف الفاظ میں بتا دیاکہ اگر تعلقات کو آگے بڑھانا ہے تو اس کی بنیاد سچائی پر ہونی چاہیے۔ جو آپ سمجھتے ہیں وہ کہیں، میں سنوں گا اور جو میں سمجھتا ہوں وہ کہوں گا اور آپ کو سننا ہوگا۔
جب ہم ایک دوسرے کے خدشات نہیں سنیں گے تو پیش رفت نہیں ہو پائے گی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات خطے کے مستقبل کا تعین کریں گی اور سب سے بڑی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی جنگی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے اب تک کے نتائج پر غور کرے کیونکہ جنگی رویہ کے باعث اب تک افغانستان کا معاملہ حل نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی اس کے امکانات موجود ہیں ،ضروری ہے کہ بات چیت کے عمل پر زیادہ غور کیاجائے ۔
جہاں تک پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی بات ہے تو اس پر حکومتی وعسکری حکام نے واضح پیغام پہلے دیدیا ہے کہ وہ دباؤمیںآکر کسی اور کی جنگ میں شامل نہیں ہونگے البتہ مذاکرات کیلئے ہر وقت اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
اس وقت خطے کی صورتحال عدم توازن کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ جنگی مائنڈ سیٹ ہے حالانکہ پاکستان نے بلاتفریق دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا ہے جس کے نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں اور آج ملک میں امن وامان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے جس میں ایک حصہ مذاکرات کا بھی ہے۔
امریکہ جب تک جنگی روش پر قائم رہے گا معاملات بہتر نہیں ہونگے اس لئے ضروری ہے کہ امریکہ خطے کے بہترین مستقبل کیلئے پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے، تحمل سے ایک دوسرے کی بات سنیں پھر بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔
پاک امریکہ تعلقات،خطے کامستقبل
وقتِ اشاعت : September 7 – 2018