|

وقتِ اشاعت :   September 17 – 2018

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ملزمان انور مجید اور عبدالغنی مجید کے طبی معائنے کے لئے سرجن جنرل آف پاکستان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار عبدالغنی مجید کے معائنے کے لئے میڈیکل بورڈ کی تشکیل سے متعلق ایف آئی اے کی درخواست کی سماعت کی۔

دوران سماعت تفتیشی افسر نے تفتیش مکمل نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ مدعیہ تھانے پیش ہو کر شامل تفتیش نہیں ہورہی۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مدعیہ کو شامل تفتیش کسے کرنا ہے، کیا وہ بھی عدالت کی ذمہ داری ہے۔ آئندہ سماعت پر ہر حال میں آپ کی تفتیش مکمل ہو۔

چیف جسٹس نے ڈاکٹر سیمی جمالی سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ میں آپ کو اتنا کمزور نہیں سمجھتا تھا، آپ لوگ ایک شخص کے مرض کی تشخیص نہیں کر سکتے، بواسیر کے مرض کا علاج کتنے دنوں میں ہوتا ہے ؟ میں کوئی ہومیو پیتھک دوائی بھیج دوں گا تو مرض ٹھیک ہو جائے گا، جناح میڈیکل کے دورے کے دوران آپ کی عزت کی وجہ سے ایم آر آئی مشین چیک کرنے نہیں گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہر کوئی ایک دوسرے پر معاملہ ڈال رہا ہے، جس کو کہو وہ کہتا ہے اس کے پاس جائیں اس کے پاس جائیں۔

عدالتی استفسار پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ عبدالغنی مجید 27 اگست سے اسپتال میں ہیں۔ تاثر دیا جارہا ہے کہ سندھ کے ڈاکٹرز پر اعتماد نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت کے بارے میں ریمارکس دینے پر مجبور نہ کریں۔ سرجن جنرل آف پاکستان ڈاکٹر زاہد کی سربراہی میں بورڈ تشکیل دیں گے، ان کی مرضی کہ وہ خود چیک کریں یا کوئی کمیٹی تشکیل دیں۔

انور مجید اور عبدالغنی مجید کی وکیل عائشہ حامد نے موقف اختیار کیا کہ سندھ کا مقدمہ پنجاب کیوں بھیجاجارہا ہے، کیس متعلقہ عدالت میں چل رہا ہے، ٹھوس وجوہات کے بغیر میڈیکل بورڈ نہیں بن سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت تعاون نہیں کر رہی تو ہمیں میڈیکل بورڈ تشکیل دینا پڑ رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے ملزمان کی وکیل عائشہ حامد کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے بات کرتے ہوئے لہجہ دھیما رکھیں، کوئی پنجابی میڈیکل نہیں بنے گا، قانون تک رہیں صوبائیت پر نہ جائیں، قانون کا کیس ہے اس میں صوبائیت کہاں سے آگئی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سرجن جنرل آف پاکستان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا، کیس کی مزید سماعت 24 ستمبر کو ہوگی۔