عالمی بنک کے ماتحت ایک ٹریبونل نے ریکوڈک کے مسئلے پر کمپنی کے حق میں اور حکومت پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ کاپر اور سونے کے کان ریکوڈک کو ابتداء سے ہی رشوت کمانے کا ذریعہ بنایا گیا ، پہلے تو بلوچستان حکومت کا ایک ادنیٰ افسر مکمل اختیارات کے ساتھ دہائیوں فوکل پرسن رہا۔کسی نے بھی ان معاہدوں کو پڑھا ہی نہیں جو کمپنی کے ساتھ کیے گئے۔
پہلا معاہدہ آسٹریلوی کمپنی کے ساتھ کیا گیا، بعض سیاستدانوں نے اپنے جہا زمیں آسٹریلیا میں اپنا حصہ غیر ملکی کرنسی میں وصول کیا۔ آئے دن افسروں اور سیاستدانوں کو بیرونی ملک کے دورے اس کرپٹ اور بے ایمان فوکل پرسن کے ذریعے کرائے گئے۔ جب موجودہ کمپنی سے تنازعہ ہوا اور حکومت نے اس کو کان کنی کی اجازت دینے سے انکار کیا تو کسی حد تک تحقیقات کی گئیں۔
ان سرسری تحقیقات سے چند ایک بڑ ے بڑے افسروں کو سرکاری تحویل میں لیاگیاتھا تو ان سب نے اطلاعات کے مطابق بڑی بڑی رقوم کمپنی سے لینے کا اعتراف کیا۔تفتیش کاروں نے یہ اطلاعات ابھی تک عوام الناس کو نہیں بتائیں کہ ریکوڈک میں کتنا کرپشن ہوا ؟
اس لیے کمپنی نے جو بھی معاہدہ اپنی مرضی سے تحریر کیا، افسر شاہی کے احکامات کے تحت سیاسی حکمرانوں نے اس کو تسلیم کیا، نہ اس معاہدے کو پڑھنے کی زحمت کی اور نہ ہی بلوچستان کی قومی دولت کو لٹنے سے بچانے کے لیے کوئی کردار ادا کیا، ان کو صرف اپنے حصے کی رقم سے غرض تھی سو انہوں نے وصول کرلیا۔
ابتداء سے یہ اندازہ تھا کہ فیصلہ حکومت پاکستان کے خلاف آئے گا اور کمپنی کے طاقتور ترین مالکان اس فیصلے کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے خصوصاً ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر کہ پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا۔
اس فیصلے کے اثرات دیرپا ہوں گے جس کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ریکوڈک کا معاہدہ حکومت پاکستان نے کیا کیونکہ وفاق نے بلوچستان کو کبھی یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے طور پر کسی ملک یا کمپنی کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے، سیندھک اس کی بہترین مثال ہے جو بلوچستان کی ملکیت تھی لیکن معاہدہ اسلام آباد نے کیاصرف ڈھائی فیصد بلوچستان کو دے کر باقی اٹھانوے فیصد اسلام آباد اور چین لے گئے۔
ریکوڈک فیصلے کے بعد تما م تر معاملات کو بلوچستان کے سر تھوپنا سراسر نا انصافی ہے اس لیے اگر تیس کروڑ یا چالیس کروڑ ڈالر کا جرمانہ عائد ہوتا ہے تو وفاقی حکومت اس کی ذمہ دار ہے ،صوبائی حکومت نہیں یہ رقم وفاقی حکومت کو اپنی پالیسی کی وجہ سے ادا کرنی ہوگی۔
گزشتہ حکومت کے دوران میرعبدالقدوس بزنجو نے اس کیس پر دوبارہ کام شروع کیا مگر جو جرمانہ لگایا گیا وفاقی حکومت نے سارا ملبہ بلوچستان پر ڈال دیا جو کہ سراسر زیادتی ہے کیونکہ اس پروجیکٹ سے منافع وفاقی حکومت لے رہی تھی مگر جرمانے کی باری آئی تو انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔
میرعبدالقدوس بزنجو کے دور میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ریکوڈک کادوبارہ ٹینڈر کیاجائے گا جس میں یہ شرط بھی رکھنے کی تجویز تھی کہ جو بھی کمپنی اس کو حاصل کرے گا وہ جرمانہ کی رقم بھی ادا کرے گی مگر معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا ۔
اب نئی حکومت اس اہم نوعیت کے منصوبے کے حوالے سے معاملات کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے ٹینڈر کرے بلکہ ساتھ ہی وفاقی حکومت کے تعاون سے جو جرمانہ لگا ہے اس کے حوالے سے بات چیت بھی کرے تاکہ بلوچستان پر اس کا بوجھ نہ آسکے ۔
بلوچستان کے وسائل کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے صوبائی حکومت اہم منصوبوں کے معاہدوں کو پڑھتے ہوئے ان پر نظر ثانی کرے خاص کر جو ماضی کی حکومتوں نے کئے ہیں کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان کے وسائل کا سودا کرتے ہوئے یہاں کے نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔
حال ہی میں حکومت اور اپوزیشن نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ ماضی میں جتنے بھی منصوبوں کے معاہدے ہوئے ہیں ان پر نظر ثانی کی جائے گی اور بلوچستان کے مفادات کومقدم رکھتے ہوئے حکمت عملی بنائی جائے گی لیکن اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ریکوڈک جیسے اہم منافع بخش منصوبے میں ہونے والی بے ضابطگیوں میں ملوث عناصر کو بے نقاب کیا جائے ۔
اور جنہوں نے بلوچستان کے مفادات کو پس پشت ڈال کرایسے نقصان دہ معاہدے کیے ہیں، ان سے بھی بازپرس لازمی ہے اور ان کے نام بھی عوام کے سامنے آنے چاہئیں تاکہ بلوچستان کے عوام کو پتہ چلے کہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے کون ہیں۔
بلوچستان کے وسائل کا تحفظ ضروری ہے
وقتِ اشاعت : September 18 – 2018