|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2018

گوادر پورٹ فعال ہونے سے ملکی خزانہ کو 10 ارب ڈالر سالانہ آمدن ہوسکتی ہے، 2006ء میں گوادر پورٹ میں مشرف دورحکومت میں تین برتھ بنائے گئے، گوادر اپنے محل وقوع اور گہرے سمندر کی وجہ سے خطے میں بڑا گیم چینجر ہے۔

یہ معاشی حوالے سے دنیا کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جس کی وجہ سے گوادر کو مدرپورٹ کہاجاتا ہے۔ گوادر دو خطوں مشرق وسطیٰ اورو سط ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے جس سے خطے کے پچاس ممالک آپس میں یہاں سے تجارت کرسکتے ہیں۔

اس وقت ایرانی بندرگاہ مشرقی ایشیاء کے ممالک سے صرف تجارتی راہداری سے سالانہ چھ ارب ڈالر کمارہی ہے، بندر عباس سے وسط ایشیاء کے بیشتر ممالک دوہزار آٹھ سو کلومیٹر جبکہ گوادر سے صرف 1400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں اگر گوادر سے وسط ایشیاء کے ممالک تک سڑک اور ریلوے لائن بچھائی جائے تو پاکستان کو سالانہ دس ارب ڈالر سے زائد آمدن راہداری کے ذریعے ملے گی جو ملک میں بہت بڑی معاشی تبدیلی کا سبب بنے گی۔

گوادر پورٹ میں مشرف دور حکومت کے دوران 2002 سے 2006ء تک تین برتھ تعمیر کئے گئے جبکہ گزشتہ حکومت نے 72 برتھ تعمیرکرنے کی پلاننگ کی مگر بدقسمتی سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سابق مشیر خزانہ بلوچستان نے بجٹ تقریر میں خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ گوادر سمیت بلوچستان بھر میں صرف 12 ارب روپے خرچ کئے گئے۔

گزشتہ حکومت نے پانچ نئے برتھ تعمیر کرنے کااعلان کیا جس کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیا گیا مگر آج تک اس پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب ایرانی حکومت سیستان بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران میں سرمایہ کاری کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کررہی ہے۔

ایران نے گزشتہ برس ایرانی دارالحکومت تہران میں ایرانی بلوچستان مکران میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اجلاس کا انعقادکیا تھا جس میں ایرانی حکام سمیت 120 غیرملکی مہمانوں اور30 ممالک کے سفیروں نے شرکت کی تھی۔

ایرانی حکام کی جانب سے کہاگیا تھا کہ ساحلی علاقہ مکران سرمایہ کاری کیلئے ایک بہترین خطہ ہے اور مکران ایک پوشیدہ خزانہ ہے۔ ایرانی حکام نے ساحلی علاقے مکران کی سیاحتی، تجارتی اور اقتصادی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس علاقے میں ائیرپورٹ ، ریلوے نیٹ ورک کے منصوبوں پر کام جاری ہے اس کے ساتھ ایرانی حکام نے مکران کے ساحلی علاقوں کو انتہائی پُرامن قرار دیتے ہوئے مستقبل میں ترقی کا اہم ذریعہ بتایا ۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں اب تک گوادر پورٹ پر خصوصی توجہ نہیں دی جارہی ۔ مشرف دور حکومت کے بعد گوادر پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے یہ اب تک فعال نہیں ہوسکی۔

اگر گوادر پورٹ کو مکمل فعال کیاجائے ،اس کے لیے ریلوے ٹریک، سڑکیں، انفراسٹرکچر بنائی جائے تو پورٹ صرف راہداری کے ذریعے قومی خزانہ کو اربوں ڈالر کی آمدن دے سکتی ہے مگر بنیادی شرط اس منصوبے کو سنجیدگی سے لینے کی ہے جس طرح ایران اپنے ساحلی علاقے پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ ساتھ غیرملکی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور اپنی تجارت کو وسعت دے رہا ہے ۔

اگر ہماری حکومت گوادر جیسے اہم نوعیت کے منصوبے پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اس پورٹ کی فعالی کیلئے خودسرمایہ کاری کرے اوراس میں غیرملکی سرمایہ کاروں اور ممالک کو بھی شامل کرے تو پاکستان نہ صرف معاشی حوالے سے مستحکم ہوگا بلکہ اس سے بلوچستان کے عوام کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔

اس کے ساتھ ہی صوبائی حکومت کو چائیے گوادر کے عوام کے قانونی تحفظ کیلئے اہم اقدامات اٹھائے تاکہ وہاں کے لوگوں میں موجود خدشات اور تحفظات کو دور کیاجاسکے ۔ گوادر بلوچستان کا اہم سرمایہ ہے اور اسی طرح یہاں کے باشندے اس کی ترقی کی ضمانت ہیں۔