کوئٹہ: انتخابات 2018میں عبرتناک شکست کے بعد نیشنل پارٹی اور بی ایس او (پجار )کی قیادت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔
گوکہ یہ اختلافات انتخابات کے فوراً بعد شروع ہوگئے تھے لیکن پارٹی اور تنظیمی قیادت کے درمیان ان اختلافات کو منظم منصوبہ بندی کے تحت منظرعام پر آنے سے روکے رکھاگیا اختلافات کی نوعیت اس وقت شدید ہوگئی جب نیشنل پارٹی کے انتخابات میں بری طرح شکست جانے کے بعد پارٹی قیادت کی جانب سے تربت میں بلائی گئی پہلی ما بعد انتخابات تجزیاتی اجلاس میں پارٹی کے سینئر اراکین نے ببانگ دھل پارٹی کی شکست کی ذمہ دار بی ایس او کے نوجوان اور ناتجربہ کار سیاسی قیادت کے کندھوں پر ڈال دی جس پر بی ایس او کے نوجوانوں کا ردعمل فطری امر تھا لیکن پارٹی کے سینئر باشعور اکابرین نے درمیان میں آکر اختلافات کو آگے بڑھنے سے روک دیا با۔
خبر ذرائع کے مطابق نیشنل پارٹی میں موجود پارلیمانی مراعات یافتہ طبقہ انتخابات میں شکست کو اپنے سر لینے کیلئے ہنوزتیار نہیں اس سلسلے میں پارٹی میں موجود پارلیمانی مراعات یافتہ طبقہ یہ سمجھتی ہے کہ انتخابات میں پارٹی کی شکست کی بڑی وجہ سوشل میڈیا پر موجود کمزور صحافتی محاذ تھا جو دگر گروپس کا مقابلہ کرنے میں قاصر رہا ۔
چونکہ سوشل میڈیا کی ذمہ داری نوجوانان خصوصی طور پر بی ایس او کے نوجوانوں کی تھی جو بقول پارٹی قیادت اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا نہ کر سکے جبکہ اس منظر نامے میں بی ایس او کے نوجوانوں کا موقف یہ ہے کہ انتخابات میں پارٹی ناکامی کی سب سے بڑی وجوہات دوران حکومت اقرباء پروری ، ٹھیکیداری کلچر ، پارٹی کے اندر ذاتی پسند وناپسند کی روش ،ریکوڈک ،سیندک اور گوادر کے معاملات پر ذاتی اور خاندانی مراعات کیلئے غیر سنجیدہ رویہ ،بلوچ علاقوں میں روزگار کی عدم فراہمی ،نام و نمود کیلئے سطحی نعرہ بازی ، تعلیمی معیار میں 46فیصد تک گراوٹ ،علاقائی اور نسلی تعصب، متکبرانہ اور میر ومعتبری سوچ ہے واقفان حال کے مطابق بی ایس او کے دوستوں نے پارٹی قیادت کو حکومت کی ابتدائی دنوں میں مشورہ دیا تھا کہ پارٹی قیادت اپنے ان رویوں میں تبدیلی لائے ۔
لیکن ان دنوں قیادت کی رائے یہ تھی کہ’’ اب انتخابات میں کامیابی عوامی ووٹوں سے نہیں بلکہ صرف نوٹوں سے ممکن ہے‘‘، لیکن اب جبکہ وہ انتخابات میں شکست کھا چکے ہیں تو بقول بی ایس او کے دوستوں کے اپنی اس رائے سے مکر گئے ہیں ۔
باخبر ذرائع کے مطابق پارٹی کی جانب سے انتخابات کے بعد یوتھ کانفرنس ،یوتھ، سیمینارزاور لیکچرز پروگرامز اسی سلسلے کی کھڑیاں ہیں کیونکہ پارٹی قیادت اب بی ایس او پجار کی موجودہ قیادت سے بیزار ہو کر اکتا چکی ہے اور ان پروگرامز ،سیمینارز، کانفرنس اور لیکچرز کے پیچھے بی ایس او کیلئے ایک نئی قیادت کی تلاش کا مقصد کار فرما ہے واقفان حال جانتے ہیں کہ ان تمام تقاریب میں جو بنیادی طور پر نوجوانوں کیلئے تشکیل دیئے گئے تھے ۔
بی ایس او کی مرکزی قیادت کہیں موجود دکھائی نہیں دی ذرائع بتاتے ہیں کہ بی ایس او کی قیادت نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارٹی قیادت کی جانب سے خود کو دیوار سے لگانے کی روش کا ہر صورت میں مقابلہ کریں گے اور پاکستان کی آئینی وحدت میں رہ کر اپنی تعلیمی سماجی اور سیاسی حقوق کا دفاع کرتے رہیں گے اور پارٹی قیادت کو ہرگز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ بی ایس او کی پچاس سالہ قربانیوں سے بھری تاریخی تحریک کو اپنے خاندان اور من پسند افراد کی ذاتی مراعات کیلئے استعمال کریں باخبر ذرائع کے مطابق بی ایس او اور نیشنل پارٹی کے اختلافات اب اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اب منظر عام پر آنے میں چند ہفتے سے زیادہ کاوقت نہیں لگے گا ۔
نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار میں اختلافات شدت اختیار کرگئے
وقتِ اشاعت : September 26 – 2018