|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2018

سریاب کے مکین آج کے جدید دور میں بھی بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہیں ۔اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی کہ صوبائی دارالحکومت کی سب سے بڑی کچھی آبادی کو شہری سہولیات کیسے فراہم کی جائیں گی ۔

گزشتہ حکومت میں سابق وزیراعلیٰ نے ایک عوامی تقریب سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ 6 ارب روپے کے ایک منصوبہ سے سریاب کو شہری سہولیات فراہم کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے اور یہ صوبائی پروجیکٹ ہوگا جس کے اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔

اکثریہ ہوتا آیا ہے کہ صوبائی حکومت کی ترقیاتی بجٹ کو زیادہ تر ایم پی ایز اپنی ذاتی اسکیموں کے لیے لے جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ رقم عوامی فلاح وبہبودپر کوئی خرچ ہوئی لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی ترقیاتی منصوبوں کی ساری رقم معاشی ترقی اور شہری سہولیات پر لگائی جائے ۔

1980 ء کی دہائی میں ایک ایم پی اے جو اپنے قبیلے کا نواب تھا، اس کو پچاس لاکھ روپے ایم پی اے فنڈ سے دیا گیا، اس نے رقم حاصل کرکے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈال جمع کرادیا۔ جب میڈیا نمائندگان نے پوچھا کہ یہ تو ترقیاتی فنڈ ہے اور آپ نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈالا ہے یہ تو قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ کرپشن ہے تو اس کی جانب سے جواب آیا کہ یہ رقم مجھے دی گئی ہے ترقیاتی کام کرانا حکومت کا کام ہے میرا نہیں۔

روز اول سے ایم پی اے حضرات اس کو ذاتی فنڈ قرار دیتے آرہے ہیں۔ گزشتہ 35 سالوں میں صوبائی حکومت کسی ایک ایسی اسکیم کی نشاندہی کرے جو ایم پی اے فنڈ سے تعمیرہوا ہو، اس سے کتنے لوگوں کو روزگار ملا یا صوبائی حکومت کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ یہ سارے وسائل ضائع ہوئے خصوصاََ گزشتہ 35 سالوں سے جب سے جنرل ضیاء الحق نے ان ایم پی اے حضرات کیلئے ترقیاتی فنڈمختص کیے ہیں۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر اس نامور اور طاقتور ایم پی اے کے خلاف تحقیقات کی جائے جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں اربوں روپے کے فنڈز حاصل کیے اور اسے عوامی فلاح وبہبود پر خرچ نہیں کیا اور اس کو اپنے ذاتی اکاونٹ میں ڈال دیا۔یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کرائے اور اگر کوئی مجرم پایا گیا تو اس کو سزا دی جائے۔ ویسے بلوچستان میں سابق حکومت اور اس کی نوکر شاہی کی کرپشن کی کہانیاں مشہور ہیں صرف ایک سرکاری افسر کے گھر سے 73 کروڑ روپے برآمد ہوئے ۔

اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف سریاب بلکہ پورے صوبے میں شہری سہولیات فراہم کرنے کیلئے منصوبے بنائے جائیں،ہر بڑے شہر کو شہری سہولیات فراہم کی جائیں۔ گزشتہ دور میں مقامی حکومت اور میونسپل ادارے ملازمین میں صرف تنخواہیں بانٹتے رہے ہیں، صحت اور صفائی کیلئے کوئی رقم نہیں بچی۔ بنیادی شہری سہولیات کی عدم دستیابی سے پورا بلوچستان ایک وسیع وعریض کچھی آبادی کا منظر پیش کررہا ہے۔

سہولیات کی فراہمی کی ابتداء سریاب سے کی جائے تاکہ یہاں کی دس لاکھ پر مشتمل کچھی آبادی کو کچھ راحت مل سکے اور سریاب بھی شہر کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے ہم پلہ ہوسکے۔ خضدار اور تربت میں بھی وسیع پیمانے پر شہری سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ بلوچستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر میں بھی کچھی آبادی کا تاثر ختم ہوجائے اور بلوچستان کے یہ تینوں بڑے شہر ترقی یافتہ نہیں توصاف ستھرے ضروربن جائیں۔

کوئٹہ کاعلاقہ سریاب جہاں مسائل سب سے زیادہ ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کے بیشتر سابق وزرائے اعلیٰ کی رہائشگاہیں بھی یہاں موجود ہیں۔ مسائل سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود اس علاقے کو نظر انداز کرنا انتہائی زیادتی ہے گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی ان کے اپنے رہائشی علاقوں میں بنیادی سہولیات کے فقدان سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ نئی حکومت ترجیحی بنیادوں پر کوئٹہ کے اس بڑی آبادی والے علاقے کو مسائل سے نکالنے کیلئے اپناکردار ادا کرے۔