|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2018

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیرصدارت کابینہ اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے جن غیرمعیاری ترقیاتی منصوبوں کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرنے کا فیصلہ کیاگیاجبکہ متعلقہ محکموں کو انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔

اجلاس میں سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ اور ترقیاتی منصوبوں کے غیر معیاری کام کے ویڈیو کلپس پیش کئے گئے، صوبے کے مختلف ضلعوں میں جاری دو سو سے زائدترقیاتی منصوبوں کے تعمیراتی معیار کا معائنہ کرکے رپورٹ مرتب کی گئی ہے، اجلاس میں غیرمعیاری ترقیاتی منصوبوں کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی سفارش بھی کی گئی۔

کابینہ شرکاء نے فیصلہ کیاکہ وسائل کا ضیاع ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا،کابینہ نے صوبے کے ہر ضلع میں ایک ریذیڈنشل کالج کے قیام کی منظوری بھی دی، صوبے کی یونیورسٹیوں ، میڈیکل کالجوں، ریذیڈیشنل کالجز، پولی ٹیکنیک کالجز اور کیڈٹ کالجز کاجائزہ لینے کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی کے قیام کا بھی فیصلہ عمل میں لایاگیاجو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے معیار کی بہتری اور مسائل کے حل کے لئے تجاویز اور سفارشات پیش کرے گی۔

صوبائی کابینہ نے کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی 1690اساتذہ کے کنٹریکٹ کی معیاد میں ایک سال کی توسیع کی منظوری بھی دی ، کابینہ نے ضلع آواران کے اساتذہ کی تصدیق اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ گلوبل پارٹنر شپ فنڈ کے تحت 3570ملین روپے کی لاگت سے بلوچستان ایجوکیشن پروجیکٹ میں مزید چھ ماہ کی توسیع کی گئی پروجیکٹ کے تحت صوبے میں 725نئے اسکول قائم کئے گئے، 95 پرائمری اسکولوں کو مڈل اسکول اور 24مڈل اسکولوں کو ہائی اسکولوں کا درجہ دیا گیا۔

کابینہ نے سرکاری ملازمین کودوران ملازمت اور پنشن کے بعد انتقال کی صورت میں ان کے بچوں کو تعلیمی اسکالر شپ، شادی الاؤ نس بھی دینے کا فیصلہ کیا۔ کابینہ نے محکمہ منصوبہ بندی وترقیات کومالی سال 2019۔20کی پی ایس ڈی پی کی تیاری اکتوبر سے شروع کرنے کی ہدایت بھی کی اورجو جاری اسکیمیں 60سے 80فیصد تک مکمل ہوچکی ہیں ان کے لئے ترجیحی بنیادوں پرفنڈز فراہم کرنے کافیصلہ کیا گیا ۔

کابینہ نے تمام محکموں کو اپنے ایک دہائی سے زائد زیرتکمیل منصوبوں کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اجلاس کے دوران کہا کہ عوام کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، عوام کی خواہشات پرپورا اترنے کے لئے ہمیں سخت فیصلوں سمیت محنت بھی کرنا ہوگی، ہم گورننس اور مالی وانتظامی نظم ونسق بہتر کرکے عملی طور پر ثابت کریں گے اور اپنی کارکردگی سے ماضی اور موجودہ حکومت کا فرق بتائینگے۔

یقیناًکابینہ کے ان فیصلوں کو صوبے کے وسیع ترمفاد میں سراہا جاسکتا ہے لیکن بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ گڈ گورننس کا ہے ہمارے یہاں تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں تو دوسری جانب کچھ ترقیاتی اسکیمیں دس سالوں سے زائد عرسے سے زیر تعمیر ہیں اور مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہیں کیونکہ ان میں کرپشن کی بھر مار ہے اوران سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

کابینہ کے فیصلوں پر اگر صحیح معنوں میں عملدرآمد کیاجائے تو یقیناًکوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع میں کافی بہتری آئے گی خاص کر ہمارے یہاں تعلیم اور صحت کے شعبے تباہ ہوکر رہ گئے ہیں جن کی بہتری کیلئے ایک مانیٹرنگ ٹیم سمیت ماہرین کی اشد ضرورت ہے تاکہ تجربہ کار اور باصلاحیت افراد ان دونوں شعبوں کو معیاری اور بہتر بنانے میں کردار ادا کریں۔

اس سے قبل بھی گزشتہ حکومتوں نے بڑے بڑے دعوے اور اعلانات کئے مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان جو سب سے زیادہ پسماندہ اور غریب عوام کا صوبہ ہے ،اسی عوام کی حالت بہتربنانے کیلئے کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور ماضی کی روایات کا خاتمہ کرے۔