|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2018

سی پیک میں تیسرے اسٹرٹیجک پارٹنر اور پاکستان کے اہم اتحادی سعودی عرب کے اعلیٰ سطحی سرکاری وفدنے گزشتہ روز گوادر کا دورہ کیا، وفد کی سربراہی سعودی مشیر برائے توانائی، صنعت اور معدنیات احمد الغامدی نے کی۔

سعودی عرب کے 6 رکنی وفد میں مختلف شعبوں کے ماہرین اور اعلیٰ حکام بھی شامل تھے جنہوں نے گوادر بندرگاہ،کارواٹ ڈی سیلینشن پلانٹ اور گوادر فری زون کا دورہ کیا اور گوادر بندرگاہ کے مختلف حصوں کا معائنہ کیا۔ سعودی وفدکو چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی اور ادارہ ترقیات گوادر کے ڈائریکٹر جنرل نے تفصیلی بریفنگ دی۔ بریفنگ میں ان شعبوں کی نشاندہی کی گئی جن میں سعودی عر ب سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔

وفد کو بتایاگیا کہ گوادر میں سی پیک پروجیکٹ کے تحت 80ہزار ایکڑ پر میگا آئل سٹی تعمیر کیاجائے گا جس کے ذریعے گوادر سے چین تک درآمد شدہ تیل بجھوایا جائے گا یہ تیل خلیجی ممالک سے درآمد کیاجائے گا اور گوادر آئل سٹی میں ذخیرہ کیاجائے گا یہ چین تک تیل پہنچانے کا مختصر ترین راستہ ہوگا۔ گوادر میں دنیا کی بڑی آئل ریفائنریز میں سے ایک ریفائنری بھی لگائی جائے گی جس سے پاکستان اور چین سمیت وسط ایشیائی ممالک کے تیل کی ضروریات کو پورا کیاجائے گا۔

پاکستانی حکام نے وفد کو بتایا کہ آئل سٹی سمیت گوادر اور سی پیک پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔ بلوچستان میں موٹرویز اور ریلوے نیٹ ورک کی نئی تعمیرات میں سعودی کمپنیاں سرمایہ کاری کرسکتی ہیں۔سعودی وفد نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی ،مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں،اور ہر مشکل وقت میں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ رہا ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو فروغ دینے پر بات چیت ہوئی تھی۔ وزیراعظم نے سعودی حکام کو سی پیک میں تیسرا فریق بننے اور سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی جسے سعودی حکام نے قبول کیا تھا اور سعودی وفد کا یہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سی پیک منصوبہ میں بلوچستان کی مکمل شراکت داری کو یقینی بنانے کیلئے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جو یقیناًان کا قانونی حق ہے کیونکہ بلوچستان کو ماضی میں اسی طرح اہم منصوبوں میں نظرانداز کیا گیا جس کی واضح مثال ریکوڈک ہے جس سے وفاق نے منافع کمایا لیکن جب کرپشن اور کمپنی کے ساتھ تنازعہ کا معاملہ سامنے آیاتو وفاقی حکومت نے نہ صرف کنارہ کشی اختیار کرلی بلکہ غیرملکی کمپنی کے حق میں فیصلہ کے بعد جو جرمانہ عائد کیا گیا اس کی ادائیگی سے بھی وفاقی حکومت مکر گئی اورسارا ملبہ بلوچستان پر ڈال دیا ۔

18 ویں ترمیم کے بعد گو کہ بلوچستان کو اپنے وسائل اور معاملات پر فیصلہ کرنے کا حق ہے لیکن وفاق یہ حق دینے کو تیار نہیں، اب بھی بلوچستان کے وسائل سے متعلق فیصلے وفاق کررہا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے خدشات اور تحفظات سی پیک سے متعلق موجود ہیں لہٰذا ا وفاق کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان خدشات کو دور کرے اور بلوچستان کے نمائندوں کو سی پیک کے متعلق سعودی عرب کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں میں اعتماد میں لیتے ہوئے اہم فیصلوں میں شامل کرے تاکہ یہاں کے عوامی نمائندگان اس منصوبہ میں ہونے والے معاہدوں سے آگاہ ہوسکیں ۔

اور اس منصوبے سے بلوچستان کوکیا ملے گا وہ بھی سامنے آسکے ۔سی پیک یقیناًایک بڑا معاشی منصوبہ ہے ، بلوچستان کو اس سے بھرپور مالی فائدہ ملنا چاہئے اور ساتھ ہی یہاں کے عوام کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیاجائے تاکہ وہ اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں تبدیل نہ ہوجائیں جس سے متعلق پہلے بھی تحفظات ظاہر کئے گئے تھے ۔ سعوی عرب کی شراکت داری یقیناًایک اہم پیشرفت ہے اس سے ملک میں مزید سرمایہ کاری بڑھے گی ،اس منصوبے کامرکز بلوچستان ہے تو فائدہ بھی اس کو ملنا چاہیے، یہ نہ ہو کہ مسائل بلوچ عوام بھگتیں اور فوائد دوسرے صوبے سمیٹیں ۔