قومی احتساب بیورو نے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ ، قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنمااور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا ہے۔نیب کی جانب سے جاری کی جانے والی پریس ریلیز کے مطابق شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں حراست میں لیا گیا ہے اور انھیں سنیچر کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
شہباز شریف کی گرفتاری جمعے کو اس وقت عمل میں آئی جب وہ لاہور میں احتساب بیورو کے دفتر میں صاف پانی اسکینڈل کے سلسلے میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے آئے تھے۔وہ ماضی میں بھی متعدد مرتبہ ان دونوں معاملات میں نیب لاہور میں بیان ریکارڈ کرواتے رہے ہیں۔شہباز شریف اس وقت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں اور قوانین کے تحت ان کی باضابطہ گرفتاری کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی سے بھی رابطہ کیا گیا۔
قانون کے تحت قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کی گرفتاری کی صورت میں اسپیکر کو اطلاع دی جانی ضروری ہے۔گرفتاری کے بعد شہباز شریف کو لاہور میں نیب کے دفتر میں ہی رکھا گیا ہے ،اطلاعات کے مطابق دفتر کے باہر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے جبکہ ن لیگ کے کارکن وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن نے شہباز شریف کی گرفتاری پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کا مطالبہ ہے کہ بددیانت لوگوں کے خلاف مہم چلائی جائے۔ اور ان لوگوں نے تولوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا ،یہ تو آغاز ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ہیں جن کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ شہباز شریف کے الفاظ ہیں کہ میری مرضی کے بغیر کسی کی ٹرانسفر نہیں ہو سکتی۔ میرے بغیر پنجاب میں کچھ نہیں ہو سکتا، اس لیے انہی کو مجرم ٹھہرایا جائے گا۔دوسری جانب بعض حلقے شہباز شریف کو حراست میں لیے جانے کے فیصلے کو پاکستان تحریک انصاف حکومت کی جانب سے دھیان بٹانے کا قدم قرار دے رہے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے صدر کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عوامی خدمت گاروں کو محض سیاسی مخالف ہونے پر عبرت کا نشان بنانے کی روش پہلے بھی ملک و قوم کا نقصان کرچکی ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے یہ ہتھکنڈے نئے نہیں اور سیاسی مخالفین کے خلاف نیب کے استعمال کی بدقسمت تاریخ ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ضمنی الیکشن کے موقع پر شہباز شریف کی گرفتاری سے ثابت ہوگیا کہ حکومت مسلم لیگ ن سے کتنی خوفزدہ ہے اور آزادانہ، غیرجانبدارانہ الیکشن کومخالفین اپنی سیاسی موت سمجھتے ہیں۔بیان کے مطابق مسلم لیگ ن تمام صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور قائدین کی مشاورت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
پنجاب حکومت نے مارچ 2013 میں کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کو گھر فراہم کرنے کے لیے پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی میں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا منصوبہ بنایا تھا جس کے تحت چھ ہزار چار سو گھر تعمیر کیے جانے تھے۔پنجاب حکومت نے اس سلسلے میں تین ہزار کینال اراضی مختص کی تھی جس میں سے ایک ہزار کنال ڈیویلپرز کو دی گئی تھی۔قومی احتساب بیورو نے گزشتہ سال نومبر میں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کے حوالے سے تحقیقات شروع کی تھی جب ان کے پاس متاثرین کی جانب سے متعدد شکایت آئی تھیں کہ تین ہزار کنال کی سرکاری اراضی پر غیر قانونی معاہدہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ دوسری شکایت بولی لگانے والی کمپنی کے حوالے سے تھی جب اس سال شہباز شریف سے جنوری میں نیب نے سوالات کیے تھے کہ حکومت نے آشیانہ سوسائٹی کے لیے کامیاب بولی لگانے والی کمپنی سے معاہدہ واپس لے کر ایک دوسری کمپنی کو کیسے دے دیا۔یہ وہی مقدمہ ہے جس میں اس معاہدے کے وقت پنجاب میں سیکریٹری عملدرآمد کمیشن اور بعدازاں سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق سربراہ اور شہباز شریف کے قریبی سمجھے جانے والے سرکاری افسر احد چیمہ بھی گرفتار کیے گئے ہیں جو نیب کی تفتیش کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔
اگست میں قومی احتساب بیورو نے فواد حسن فواد کو اس الزام پر حراست میں لیا کہ انہوں نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ جان بوجھ کر چھپائی تھی جس میں تحقیق کی گئی تھی کہ آشیانہ ہاؤسنگ کے تعمیر کے سلسلے میں دیا گیا معاہدہ کامیاب بولی لگانے والی کمپنی کے بجائے دوسری کمپنی کو دیا گیا تھا۔
احد چیمہ پر نیب کی جانب سے الزام ہے کہ انہوں نے آشیانہ ہاؤسنگ کی تعمیر کے لیے کامیاب بولی لگانے والی کمپنی چوہدری لطیف اینڈ سنز کو دیا گیا کنٹریکٹ ان سے واپس لے کر غیر قانونی طور پر لاہور کاسا ڈیویلپرز نامی کمپنی کو دے دیا۔
اس کے علاوہ نیب حکام نے اس مقدمے میں مسلم لیگ ن کے سابق وزیر خواجہ سعد رفیق سے بھی پوچھ گچھ کی ہے۔شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد یقیناًسیاسی ماحول ایک نیا رخ اختیار کرے گی اور ساتھ ہی اپوزیشن جماعتیں بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی رہینگی جس سے معاملات زیادہ سنگین صورتحال اختیار کریں گی اوریہ امکان ہے کہ احتجاجی سلسلوں کا دوبارہ آغاز ہوگااور پنجاب کے اس کامرکز بنے گا کیونکہ دیگر صوبوں میں اس وقت اپوزیشن جماعتیں اتنی مضبوط نہیں ۔ پیپلزپارٹی احتجاجی مہم میں مسلم لیگ ن کے ساتھ اس وقت کھڑی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ۔ اب کیس میں کیا پیشرفت ہوگی اور شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد سزا ہوگی یا نہیں اس کے بعد ہی سیاسی صورتحال واضح ہوگی مگر یہ بات تو طے ہے کہ سیاسی ماحول پہلے کی نسبت گرم رہے گی ۔
شہبازشریف کی گرفتاری، سیاسی حالات کیا کروٹ لینگی
وقتِ اشاعت : October 6 – 2018