26 جون منشیات کے خاتمہ کا دن ہے اور اس دن کو دنیا بھر میں منشیات کے عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں ریلیاں نکالتے ہیں سیمینارز منعقد کرتے ہیں اور لوگوں کوآگاہی دیتے ہیں مگر اس لعنت کے عادی افرادمیں کمی نہیں آتا، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اس کو فیشن اور شوق سمجھ کر اپناتے ہیں لیکن بعد میں وہ ایسی عادت یا مجبوری بن جاتی ہے جس کو کوشش کے باوجود چھوڑنا ممکن نہیں رہتا۔ منشیات ان میں ایک ہے جو نہ صرف انسان اور اس کی زندگی بلکہ گھر، معاشرے اور قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے اسی وجہ سے منشیات کو لعنت کہا جاتا ہے۔
Posts By: ابوبکر دانش میروانی
نوجوان نسل اور ہمارا معاشرہ۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں 80 فیصد دیہاتی لوگ خط غربت سے نیچے، زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔جہاں ہم غربت کا سامنا کر رہے وہاں دیگر اہم مسائل جن میں مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، بے روزگاری ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ ناقص تعلیمی نظام اور تعلیمی سہولیات کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو لوگوں کو اچھے اور بْرے کا شعور فراہم کرتا ہے اور معاشرہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ بہتریں تعلیمی نظام ہی بہترن اور مضبوط معاشرے کی ضمانت ہے۔اگر ہم معاشرے کی برائیوں کا جائزہ لیں۔
بلوچستان کے طلباء احتجاج پر مجبور کیوں۔۔۔۔۔۔؟
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے جہاں سی پیک،سیندک،ریکوڈک، سوئی گیس، اور اوچ پاور پلانٹ جیسے بڑے بڑے منصوبے موجود ہیں جوکہ پاکستان کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے آج پاکستان کا نام سرمایہ کار ملکوں میں شمار ہوتاہے، انہی کی وجہ سے امریکہ، روس، اور چین جیسے سپر پاور ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں، مگر اتنے وسائل کے باوجود یہاں کے مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں،کہیں پانی کا مسئلہ ہے، تو کہیں بجلی کا مسئلہ ہے جن علاقوں میں اگر بجلی ہے تو وہاں اٹھارہ سے بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتا ہے۔
کورونا یا پھر خوف خدا
بچپن میں ایک ڈرامہ پی ٹی وی پر دیکھا جس میں ملک کے مایا ناز ایکٹر قوی خان نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا جو انتہائی سخت مزاج اور ظالم تھا۔ محبت، خوش مزاجی کے الفاظ اس کی لغت میں شامل ہی نہیں تھے۔ اس کے ایک بچپن کے قریبی دوست کی وفات کے موقع پر وہ ایک حیرت انگیز بات باقیوں کے ساتھ شئیر کرتا ہے کہ پیدائش سے لے کر نوکری پر لگنے، شادی ہونے، بچے کی پیدائش اور کئی اور لمحات میں دونوں میں ہمیشہ سات دن کے فرق سے سب کچھ ہوتا آیا ہے۔ اس موقع پر کوئی اس سے یہ سوال کر بیٹھتا ہے کہ یعنی اب کیا آپ کی وفات بھی سات روز بعد ہو جائے گی؟
نجانے ہماری وہ مشرقی تہذیب و روایات کہاں دفن ہو گئیں
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ انسان اپنے علم وہنر سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے مگر انسان کی شناخت کی اصل بنیاد اس کا علم و فن ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کا اخلاق و کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انسان کی حقیقی عظمت کا تعین اس کے معاملات، زندگی کے طور طریقے اور اس کے عمل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر ا س کے پاس علم کی درجنوں ڈگریاں موجود ہوں مگر اس کے اخلاق و کردار، انداز و اطوار، عادات و خصائل اور دیگر معاملات زندگی درست نہیں تو ایسے شخص کے لئے علم و فن کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنا بے معنی ہے۔وہ علم و ہنر حاصل کرنے کے باوجود محرومیوں کے اندھے کنویں میں غوطے لگا رہا ہوتا ہے۔
بچوں کے بگڑنے کے ذمہ دار کون۔۔۔۔؟
ایک بڑی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے، باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا ہے، بچہ جھوٹ بولے تو دوستوں نے سکھایا، بدتمیزی کرے تو دوستوں نے سکھایا، بچہ گالی دے تو دوستوں نے سکھایا ہے یقین جانیں یہ سوچ ہی غلط ہے،۔درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین کے اپنے فرائض کی عدم ادائیگی ہے، شروع سے ہی بچے کی تربیت کو اہم فریضہ سمجھا جاتا، بچے کی پرورش کو اولین ترجیح دی جاتی تو یہ بچہ دوستوں میں جا کر کبھی خراب نہیں ہوتا بلکہ دوستوں کی اصلاح کا سبب بنتا،۔بچہ پیدا ہوتے ہی دوستوں میں نہیں جا بیٹھتا، پیدا ہوتے ہی اسکے دوست اسے لینے نہیں آجاتے، پیدا ہوتے ہی آوارہ گردی شروع نہیں کرتا، پیدا ہوتے ہی سگریٹ نہیں پکڑتا، کم و بیش شروع کے دس سال تک بچہ مکمل والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے۔
تعلیم،تعلیمی ادارے اور ہماری ذمہ داری۔
نجی تعلیمی اداروں کی ذمہ داران اور حکومت کے درمیان تعلیمی اداروں کی بندش کے خلاف ایک سرد جنگ جاری ہے۔آل پاکستان پرائیویٹ اسکولزایسوسی ایشن نے یکم جون سے ملک بھر میں اسکول کھولنے جبکہ حکومت نے پندرہ جولائی تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر چکی ہے، اسکول انتظامیہ اس اعلان کے خلاف سراپا احتجاج ہے،اور یہ احتجاج اپنی جگہ ٹھیک ہے کیونکہ تعلیمی اداروں کے علاوہ مارکیٹیں،ہوٹلز ریسٹورنٹس،وغیرہ کھل گئے ہیں تو تعلیمی ادروں کا کیا قصور، اگر تعلیمی اداروں کی بندش مزید بڑھ گئی تو بچوں کے تعلیم پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
تعلیم،تعلیمی ادارے اور ہماری ذمہ داری۔
نجی تعلیمی اداروں کی ذمہ داران اور حکومت کے درمیان تعلیمی اداروں کی بندش کے خلاف ایک سرد جنگ جاری ہے۔آل پاکستان پرائیویٹ اسکولزایسوسی ایشن نے یکم جون سے ملک بھر میں اسکول کھولنے جبکہ حکومت نے پندرہ جولائی تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر چکی ہے، اسکول انتظامیہ اس اعلان کے خلاف سراپا احتجاج ہے،اور یہ احتجاج اپنی جگہ ٹھیک ہے کیونکہ تعلیمی اداروں کے علاوہ مارکیٹیں،ہوٹلز ریسٹورنٹس،وغیرہ کھل گئے ہیں تو تعلیمی ادروں کا کیا قصور، اگر تعلیمی اداروں کی بندش مزید بڑھ گئی تو بچوں کے تعلیم پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے اور اکثر بچے اسکول چھوڑ بھی سکتے ہیں۔
عید کی خوشیاں اور غریب کی حسرت بھری نگاہیں
یہاں تک کہ سرکار دوعالم نے اس بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے گااور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پیرے گا،اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔ہمیں بھی نبی کریم کی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے غریب،یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے اور ہمیں کل روزقیامت آپکے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔عید سب کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے لیکن پاکستان کے غریب طبقے کے لئے ”خودکشیوں ”کا پیغام ہوتا ہے۔مہنگائی نے غریبوں کے علاوہ سفید پوش یعنی مڈل کلاس طبقے کو بھی متاثر کردیا ہے اب عید کی شاپنگ متوسط طبقے کی دسترس سے بھی باہر ہوگئی ہے تو وہاں نچلے طبقے کے غریب کی حالت کیسی ہوگی۔
عید کی خوشیاں اور غریب کی حسرت بھری نگاہیں۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہزاروں تنظیمیں غربت کے خاتمے کے نام پر عیاشیوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور غریب کے نحیف جسم پر پاؤں رکھ کر اپنی معاشی زندگی کے محل تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ آج سے کئی سال قبل کی رپوٹ ہے حکومت پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پہلے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہر 10 میں سے ایک شخص غریب تھا اور اب یہ تعداد بڑھ کر 3 ہو چکی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی اور مالیات کی جانب سے بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کی موجودگی میں تیار کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں ایک دم حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔