بلوچستان کے عوام ایرانی تیل کی ترسیل پربندش کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں جاری ہے۔ مظاہرین نے حکومت کی جانب سے تیل و ڈیزل کی بندش کو معاشی قتل قرار دیاہے۔ معاشی امور کے ماہرین نے ایرانی تیل کی ترسیل پر بندش سے بلوچستان میں جاری انسرجنسی میں مزید اضافہ ہونے کا عندیہ دے دیا اور کہا کہ ایسی پابندیوں سے معاشرے میں بے چینی کی فضا قائم ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کاروبار کے خاتمے سے قبل بلوچستان میں روزگار کے متبادل ذرائع بنائے۔
Posts By: عزیز سنگھور
سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک
بلوچستان سے کراچی آنے والے لوگوں کے ساتھ پولیس گردی عروج پر ہے۔ چیکنگ کے بہانے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا معمول بن گیا۔ لوگوں سے لوٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں مختلف الزامات کے مقدمات میں پھنسا کرحوالات میں بند کرنے کا عمل جاری ہے۔ عورتوں اور بچوں کی بھی عزت نہیں کی جاتی ۔ بلوچستان سے آنے والے مسافروں کے مطابق کراچی کے چھ سے زائد پولیس تھانے مذکورہ عمل کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ جن میں سعید آباد تھانہ، موچکو تھانہ، بلدیہ تھانہ، شیرشاہ تھانہ، سائٹ تھانہ، مدینہ کالونی تھانہ سمیت دیگر تھانے شامل ہیں۔
آئی ایم کریمہ بلوچ
“میں کریمہ بلوچ ہوں میری باری کب آئیگی” جیسی پوسٹوں کی سوشل میڈیا پر بھرمار ہوگئی۔ ہر بلوچ بیٹی، کریمہ بلوچ کے قتل پر سوگوار ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ان پوسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ سماج میں شہادت کو ایک رتبہ حاصل ہے۔ بلوچ حلقوں کے مطابق کریمہ بلوچ کی موت ایک افسوسناک عمل کے ساتھ ساتھ جرات و بہادری کی علامت بھی ہے۔
بلوچستان کے تعلیمی ادارے آگ کی لپیٹ میں
بلوچستان میں ایک بار پھر تعلیمی اداروں کو جلانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یکے بعد دیگرے اسکولوں کو نذرآتش کیا جارہا ہے۔ یہ واقعات بلوچستان کے مکران ڈویژن میں رونما ہورہے ہیں جس سے علاقے میں ایک خوف اور ڈر کا سماں ہے۔ سیاسی اور سماجی حلقوں نے ان واقعات کو تعلیم دشمن عمل قراردیا اور کہا کہ ان عناصر کو سرپرستی حاصل ہے۔ بغیرسرپرستی کے ایسے واقعات ممکن نہیں۔ حال ہی میں بلیدہ کے علاقے الندور میں نامعلوم افراد نے گورنمنٹ ہائی سکول کو نذر آتش کردیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
مسنگ سٹی
گوادر شہر پاکستان کا واحداور منفرد شہرہوگاجہاں ایک ملک میں دو نظام ہوں گے۔ایک ریاست کے اندر ایک چھوٹی ریاست قائم ہوگی۔اس کی اپنی الگ سرحدیں ہوں گی، اور انٹری پوائنٹس بھی ہوں گے یعنی ایک میان میں دو تلواریں ہوں گی۔سیاسی حلقوں کے مطابق شہر کے چاروں طرف باڑلگا کرسیل کرنے کے بعدشہریوں کو اسپیشل پاسز جاری کئے جائیں گے۔ اور شہر میں آنے والوں کو راہداری (ویزہ) کی طرح کے پاسز جاری کئے جائیں گے۔ اس طرح گوادری تہری (تین) شہریت کے مالک ہونگے۔ اس سے قبل وہ دوہری شہریت رکھتے تھے یعنی سلطان آف عمان اور گورنمنٹ آف پاکستان کے شہری تھے۔ اب وہ پاکستان کے اندر دوہری شہریت کے مالک ہونگے۔ ان کے پاس اسپیشل کارڈ ہونگے۔ اس طرح ان کے پاس شہریت کی تین دستاویزات ہونگی۔
گوادر پنجرے میں
‘‘گوادر’’بلوچی زبان کے دو الفاظ ‘‘گوات اور دَر’’ سے بنا ہے، جس کے معنی ‘‘ہوا کا دروازہ’’ ہے۔ اب یہ ہوا کا دروازہ ہوا کے لئے بند ہورہا ہے۔ گوادر شہر کے گرد سیکورٹی کے نام پر باڑ لگانے کا آغازکردیا گیاہے،پشکان چیک پوسٹ سے لے کر کوسٹل ہائی وے ،گوادر، جیونی زیرو پوائنٹ تک شہر کو مکمل باڑلگا کر سیل کردیا جائیگا۔ باڑ لگانے کاآغاز پشکان چیک پوسٹ سے کیا گیا ہے۔ جو مڑانی سے ہوتے ہوئے وشیں ڈور تک کوسٹل ہائی وے گوادر جیونی زیرو پوائنٹ تک مکمل کیا جائیگا،باڑ کی تعمیر کے کیلئے گوادرشہر میں داخلے کیلئے دو انٹری پوائنٹ قائم کیے جا رہے ہیں۔
ماہی گیروں کا کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف احتجاج
فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) میں مسلسل بڑھتی ہوئی کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے ماہی گیروں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ اس تشویش اور بے چینی نے ماہی گیروں کو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور کردیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ماہی گیروں نے کراچی بندرگاہ کو ملک سے ملانے والی مین شاہراہ نیٹی جیٹی پل کو کئی گھنٹے بلاک کیے رکھا۔اس احتجاجی دھرنے میں تمام ماہی گیر جماعتوں نے حصہ لیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے فشر مینز کوآپریٹیوسوسائٹی (ایف سی ایس) کے دو سابق چیئرمینز گزشتہ دو سال سے اب تک نیب کے کیس میں جیل میں بند ہیں۔
بلوچستان میں پیدل مارچ کے بڑھتے ہوئے رجحانات
بلوچستان میں سیاسی فرسٹریشن موجود ہے جس کی وجہ سے بلوچ عوام سراپا احتجاج ہیں۔کوئی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے احتجاج میں مصروف ہے تو کوئی جبری برطرفی کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ تو کوئی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے صدائے احتجاج بلندکررہا ہے۔دراصل سیاسی فرسٹریشن کے پیچھے بیڈگورننس ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کے عوام کو پسماندہ رکھنے کیلئے ظلم و جبر، سماجی ناانصافیوں کی پالیسیوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے عوام زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
بلوچستان کے ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب
مکران میں ڈرگ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک نے منشیات کی روک تھام میں سرکاری اداروں کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منشیات فروشوں کے خلاف نئی حکمت عملی اپنانے کا عزم کرلیا۔ انسداد منشیات تحریک کے بانی رہنماؤں نے منشیات فروشوں کے رشتہ داروں پر زور دیا اگر کسی کے خاندان کا فرد منشیات فروشی میں ملوث پایاگیا تو اس کا بھائی یا رشتہ دار اس کا سوشل بائیکاٹ کریں۔ اس سے تمام سماجی رشتوں اور ناطوں کا خاتمہ کریں۔یہ سماجی تعلقات کے خاتمے کا فیصلہ انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران نے کیا ہے۔
بلوچ سرزمین کو مزیدتقسیم کرنے کی پالیسیاں
بلوچ سرزمین کوجغرافیائی بنیادوں پر مزید تقسیم کرنے کی پالیسیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہردور میں عالمی طاقتوں نے بلوچستان کو تقسیم کیا جس کی وجہ ان کی سیاسی اور عسکری طاقت کمزور پڑگئی۔ثقافت، زبان اور معاش پر منفی اثرات پڑے۔ ان کو گروہوں میں تقسیم کیاگیا۔ عالمی طاقتوں نے ماضی میں بھی بلوچ سرزمین کو مختلف ممالک کے درمیان بانٹا۔ آج بلوچ سرزمین آپ کو ایران، پاکستان اور افغانستان میں بٹا ہوا ملے گا۔ تقسیم در تقسیم کی پالیسی کامقصد دراصل بلوچوں کو سیاسی و عسکری طورپر کمزور کرنا تھا۔ ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کروانا تھا۔