بلوچستان کا صنعتی ضلع لسبیلہ خصوصاً حب میں فیکٹری مالکان کی من مانیاں عروج پر ہیں۔ لیبر قوانین کی پامالی عام ہے۔ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ ملازمتیں عارضی ہیں، ورکربنیادی حقوق سے یکساں محروم انتہائی پسماندہ حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقل ملازمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملازمین کی اکثریت عارضی، سیزنل اور کنٹریکٹ ورکرز کی ہے۔ جنہیں ملازمت کا تحفظ، سوشل سیکورٹی اور تنظیم سازی کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ وزرات محنت و افرادی قوت بلوچستان، لسبیلہ انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اتھارٹی (لیڈا) سمیت دیگر اداروں کے حکام کی مالکان کو مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
Posts By: عزیز سنگھور
بلوچ کا جینا جنجال
موجودہ حکومت مکران میں ترقی و خوشحالی کا نغمہ گنگنا رہی ہے۔ ترقیاتی پیکج کے نام پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ جنوبی بلوچستان ریجن کے عوام کی تقدیر بدل جائے گی۔ جنوبی بلوچستان کیلئے ترقیاتی پیکیج وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا ویژن ہے۔ترقیاتی پیکیج میں سڑکیں، ڈیمز اور زراعت کے منصوبے شامل ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان 13 نومبر کو تربت کے دورہ پر آئیں گے اور ان منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ جبکہ دوسری جانب مکران کے ضلع کیچ میں تعلیم دشمن پالیسیوں کا نفاذ جاری ہے۔بلوچستان ریزیڈنشل کالجز (بی آرسیز) کے ملازمین کی معطلی اور ضلع کیچ کے114اساتذہ کی غیر قانونی بنیادوں پر برطرفی موجودہ حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے۔
کراچی سمندر برد
پاکستان میں گلوبل وارمنگ، دہشتگردی جیسے چیلنج سے زیادہ گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ملک میں ہر سال ہتھیاروں سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی سے اموات ہوتی ہیں۔ ایک غیر ملکی تحقیقی ادارے ’انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوایشن‘ کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 25 ہزار افراد آلودگی سے ہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ دہشتگردی کے خلاف برسوں سے جاری جنگ میں اب تک 60 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔ پاکستان آلودگی سے ہلاکتوں میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔
سردار ہیروئن زئی کا مصنوعی جنم
کراچی میں بلوچ علاقے خصوصاً لیاری کو ایک بار پھر جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا جارہا ہے۔ علاقے میں سیاسی اور سماجی کلچر کو بندوق اور منشیات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیاری، پراناگولیمار، جہانگیر روڈ، ملیر، گڈاپ، مواچھ، ماری پور سمیت ہاکس بے کے قدیم گوٹھوں میں جرائم پیشہ افراد منشیات فروشی کررہے ہیں۔ ہرمحلہ اور گلی میں منشیات فروشی کی جاری ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آنکھیں بندکررکھی ہیں۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب بھی لیاری میں بلوچستان کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچتی ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنس کونسل کا پیدل مارچ
پاکستان میں روز اول سے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ بلوچستان میں سردار تعلیم اور ترقی کے خلاف ہیں۔ سرداروں کی وجہ سے بلوچستان میں تعلیم کا فقدان ہے۔ سردار تعلیم کے فروغ دینے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسری جانب حکومت یہ کھوکھلے دعوے بھی کرتی رہی کہ حکومت چاہتی ہے کہ بلوچستان میں دودھ کی نہریں بہیں۔ تعلیم عام ہو۔ ہر غریب کا بچہ تعلیم یافتہ ہو وغیرہ وغیرہ کے جیسے نعرے لگاتے رہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں تمام سرداروں کو باکردار اور تعلیم دوست قرار دیاگیاکیونکہ تمام کے تمام نواب اور سردار پرویز مشرف کی حکومت کا حصہ تھے۔
پرتگیز ایمپائر سے ملک ریاض ایمپائر تک
دنیا میں مختلف ادوار میں مختلف ایمپائرز (سلطنتوں) نے دنیا پر راج کیا۔ جن میں رومی، منگول، یونان، پرتگیز، برٹش وغیرہ شامل ہیں۔ ان سلطنت کے سلطانوں نے دنیا میں اپنی حاکمیت قائم کی ہوئی تھی۔ سلطنت کے اندر بہت سے عہدے ہوتے ہیں جن میں بادشاہ، ملکہ، وزیراعظم، وزیردفاع، خزانہ، وزیر افواج، وزیرتعلیم، باندھی، سپاہی اور دیگر بے شمار عہدے موجود ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا عہدہ بادشاہ کا ہوتا ہے۔ہمارے خطے میں پرتگیز اور برطانوی راج تھا۔ پرتگیز دنیا کی تاریخ کی پہلی عالمی سلطنت تھی۔ جو جنوبی امریکا، افریقہ، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیاء تک کے مختلف علاقوں پر قابض تھی۔
آشوبِ پسنی
مشہور و معروف بلوچی کلاسیکل گلوکار محمد جاڑوک بلوچ نے مکران کے ساحلی شہر پسنی کوگنگنایا۔ جاڑوک کہتا ہے کہ پسنی کے ریت کو دیکھتا ہوں میرا دل پسنی کا دیوانہ ہوجاتا ہے۔
کوہ مارگلہ کے قزاق
قزاق بحری ڈکیت کو کہتے ہیں جو سمندر میں لوٹ مار کرتے ہیں، وہ بحری جہازوں اور کشتیوں کو لوٹتے ہیں۔ قزاقوں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سمندروں میں لوٹ مار کرنے کے بعد اپنی دولت جزیروں پر چھپاتے تھے۔ اور وہ جزیروں کو اپنی پناہ گاہوں کے طورپر بھی استعمال کرتے تھے۔ اب دنیا میں قزاقی کا پیشہ دم توڑگیا ہے ماسوائے صومالیہ میں کبھی کبھی ان کی سرگرمیوں کو خبریں آتی ہیں۔ لیکن آج کل پاکستان میں یہ قزاقی کا پیشہ سراٹھا رہا ہے۔ یہ قزاق سمندر کے بجائے خشکی میں رہتے ہیں۔ اور وہ سمندر سے گیارہ سو کلومیٹر دورکوہ مارگلہ کے دامن میں رہتے ہیں۔
گریٹر بلوچستان اور گریٹر کردستان کی داستان
جنوبی بلوچستان ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کے تحت بلوچستان کے عوام کو ذہنی طورپر تیار کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں بلوچستان کو انتظامی امور کی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی بلوچستان کا نام میڈیا کی زینت بنایا جارہا ہے۔ مکران اور جھالاوان ناموں کو مٹایا جارہا ہے۔ حالانکہ ان ناموں کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔۔ ریاست مکران کی اپنی تاریخ ہے۔ جبکہ جھالاوان ریاست قلات کا ایڈمنسٹریٹیو ڈویژن تھا۔ ایک پالیسی کے تحت اس تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنا قوموں کو مسخ کرنے کے مترادف ہوتاہے۔
بلوچستان میں مصلحت پسندی کی سیاست
مکران ڈویژن میں ڈرگ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک میں سیاسی جماعتوں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان کی یہ مصلحت پسندی کی سیاست سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس سے قبل رواں سال مئی میں مسلح جتھوں کے خلاف بھی تحریک چلی تھی۔ جس میں بھی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ وہ صرف اسمبلیوں میں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کررہے تھے جبکہ عوام بغیر کسی سیاسی قیادت کے سڑکوں پر سراپا احتجاج کررہی تھی۔یہ مصلحت پسندی کی سیاست کب تک چلے گی؟ اتنی بڑی مافیا کا مقابلہ بغیر سیاسی جماعتوں کے کیسے ممکن ہوسکے گا؟ کیوں سیاسی لیڈر شپ خوف میں مبتلا ہیں؟۔