مکران کے عوام نے مسلح جتھوں کے خلاف کامیاب تحریک کے بعد ڈرگ مافیا کے خلاف ایک اور تحریک کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ منشیات کی فروخت کے خلاف ہر قصبے اور شہر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرین نے منشیات کو ریاستی ہتھکنڈہ قرارددیتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ نوجوان نسل کو کتاب کی جگہ منشیات تھما کر ان کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
Posts By: عزیز سنگھور
ریاست لسبیلہ کا عروج و زوال (قسط 2)
محمودانی ساجدیوں کو موجودہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سے لیکر گڈانی شہر تک کی ساحلی پٹی دی گئی۔ آج بھی گڈانی شپ بریکنگ یارڈ محمودانی ساجدی قبیلے کی ملکیت ہے۔ جبکہ شپ بریکرز ان کے کرایہ دار ہیں۔ موجودہ گڈانی شہر بھی کسی زمانے میں محمودانی ساجدی قبیلے کی زرعی اراضی ہوا کرتا تھا۔ اورآج بھی دستاویزات میں گڈانی شہر ساجدی قبیلے کی ملکیت ہے۔ جب بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے انہوں نے گڈانی کے شہریوں کو حق ملکیت دینے کی کوشش کی تاہم اس کو ناکام بنادیا گیا۔
ریاست لسبیلہ کا عروج و زوال (قسط 1)
ریاست لسبیلہ بے شمار جنگوں پر مشتمل ایک پوشیدہ تاریخ رکھتی ہے جس سے پردہ اٹھانا ایک اورجنگ کا محاذ کھولنے کے مترادف ہے۔ ہر ریاست تاریخ کو مسخ کرکے اپنی ایک جھوٹی تاریخ متعارف کراتی ہے۔ تاکہ وہ جھوٹ کی بنیاد پر بآسانی حکمرانی کرسکیں۔ اسی طرح ریاست لسبیلہ کے جدگال حکمرانوں نے ایک جھوٹی تاریخ پر اپنی ریاست قائم کی۔ اپنے بھائیوں کو دھوکہ دے کر ریاست پر قبضہ جمایا۔ حالانکہ ریاست لسبیلہ کے اصل وارث صرف جاموٹ کی ذیلی شاخ عالیانی نہیں ہیں بلکہ گنگو اور برفت اقتدار میں برابر کے شراکت دار ہیں۔
کولواہ سے دہلی تک
حیات کے لفظی معنے ہیں زندگی، آج کل زندہ رہنا مشکل ہوگیا۔ بلکہ ممکن نہیں رہا۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ہر انسان سوگوار ہے۔ زندگی کو بندوق کے زور پر چھینا جارہا ہے۔ سڑکوں پر لٹا کر ماں باپ کے آنکھوں کے سامنے برسٹ مارا جاتا ہے۔ والدین نے اپنی زندگی (حیات) کی جان بخشی کے لئے منتیں کیں۔ ہاتھ پاؤں پڑے مگر ان کی ایک بھی نہیں سنی گئی۔ ہولناک موت کے بعد بوڑھی ماں نے اپنے دونوں ہاتھ عرش کی طرف اٹھائے،کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ عرش سے ہی ان کو انصاف ملے گا۔ یہاں انصاف کی ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔ عرش کی عدالت میں انصاف کا بول بالا ہے۔
بگٹی کی افسانوی موت
دنیا بھر کی طرح بلوچستان اور سندھ میں بھی آج بلوچ قوم پرست رہنما شہید نواب محمد اکبر خان بگٹی کی 14 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ اس دن کومنانے کا مقصد ہے کہ نواب صاحب کی طرز زندگی اور شہادت کے مقصد پر روشنی ڈالاجائے۔میری پہلی ملاقات نواب اکبر خان بگٹی سے طالبعلمی کے زمانے میں ہوئی۔ جب میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے سابق چیئرمین رازق بگٹی کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ عام انتخابات میں رازق بگٹی اور نواب اکبر خان ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ جب ہم دیگر بی ایس او کے ساتھیوں کے ساتھ انتخابات کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے ڈیرہ بگٹی پہنچے۔
حاصل خان کی ادھوری کہانی
: نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کے والد ممتاز سیاست دان میر غوث بخش بزنجو نے اپنی وصیت میں کہا تھاکہ اس کی سیاست کا وارث ان کی اولادیں نہیں ہیں بلکہ اس کے سیاسی کارکنان ہیں۔ لیکن حاصل خان نے کبھی بھی اس سیاسی وراثت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور نہ ہی سیاست کے میدان میں انہوں نے اپنے والدکا نام استعمال کیا۔ انہوں نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنائی۔ طالعبلمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اور اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت، نیشنل پارٹی سے اختتام کیا۔
سمندر برائے فروخت
آج کل اسلام آباد میں ایک مصنوعی سمندر بنایا گیا ہے لیکن اس سمندری میں مچھلیاں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے باوجود آکشن ہال قائم کیاگیا۔ اس آکشن ہال میں مچھلیوں کی نیلامی نہیں ہورہی ہے بلکہ سندھ اور بلوچستان کے ساڑھے گیارہ سو کلومیٹر پر پھیلے ہوئے طویل سمندر کو فروخت کیا جارہا ہے۔ سمندر کی بولی لگائی جارہی ہے۔ایک اطلاع کے مطابق تقریبا ایک سو چائینیز جہازوں کو سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں ماہی گیری کے لائسنس دیئے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 18 سے 20 جہاز چین سے سندھ اور بلوچستان کے سمندر پہنچ چکے ہیں۔
لٹل ماسکو
معاشرے میں سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن کا معاشرے کے ساتھ ایک کمٹمنٹ ہوتا ہے جبکہ غیر سیاسی فرد کا نہیں ہوتا ہے۔ دراصل غیر سیاسی فرد میں سیاسی شعور کا فقدان ہوتا ہے۔ اور وہ معاشرتی برائی کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ سیاسیات ایک علم ہے جس کو ریاست کو جاننے کا علم کہا جاتا ہے۔ علم سیاسیات کی تعریف کرتے ہوئے یونان کے ممتاز فلسفی، مفکر اور ماہر منطق ارسطو کہتا ہے کہ“علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے۔“کراچی کی قدیم آبادی لیاری نے بے شمار سیاسی ورکرز پیدا کئے۔ جنہوں نے ریاست کی غیر جمہوری پالیسوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان ورکروں نے جیل کی سلاخیں اور شہادتیں بھی دیکھیں۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے لیاری کو لٹل ماسکو بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسپورٹس کے میدان میں لٹل برازیل کالقب ملا ہے۔
بلوچ قومی تشخص خطرے میں (قسط 2)
گوادر ماسٹر پلان میں گوادر کے موجودہ شہر جہاں ماہی گیر بستے ہیں، اس کی ترقی کے لئے گوادر ماسٹر پلان میں کوئی منصوبہ شامل نہیں ہوگا۔ اس وقت گوادر شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ سیوریج کا نظام درہم برہم ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ مقامی افراد تعلیم اور صحت جیسی اہم سہولیات سے محروم ہیں۔گوادر میں دیمی زر نامی ایک قدرتی گودی ہے جس کو ماہی گیر صدیوں سے بندرگاہ کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ یہ بلوچستان کی واحد قدرتی گودی (بندرگاہ) ہے، جہاں سال کے بارہ مہینے ماہی گیری کر سکتے ہیں۔ جبکہ پسنی، جیوانی اور دیگر علاقوں میں جون سے لیکر اگست تک ماہی گیری نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ان کے پاس اس طرح کی قدرتی گودی نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس قدرتی گودی کے ساحل پر ایکسپریس وے تعمیر کیا جارہا ہے جس سے ان کو ماہی گیری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ کیونکہ ساحل سے سمندر تک آنے جانے کا راستہ رک جائیگا۔ اس منصوبے کے خلاف ماہی گیروں نے سخت احتجاج کیا۔ مظاہرے اور ہڑتالیں کی گئیں۔ لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی۔
بلوچ قومی تشخص خطرے میں
بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ تلاش کیاجارہاہے۔ اس سلسلے میں ایک آئینی مسودہ تیار کیا جارہا ہے جس کے تحت ضلع گوادر کی ساحلی پٹی پر ایک نیا شہر بسایا جائیگا۔ جہاں جدیدہاؤسنگ اسکیم کے ذریعے غیر مقامی افراد کو بسایا جائیگا۔ بلوچستان کی موجودہ آبادی سے دوگنی آبادی کو بسانے کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔اس آئینی مسودے کو ایک چینی فرم اور نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اشتراک سے تیار کیا جارہا ہے۔ آئینی مسودے کوگوادر ماسٹر پلان کا نام دیاگیا۔ یہ فیصلہ اسلام آباد میں قومی ترقیاتی کونسل کے اجلاس میں کیاگیا۔